پاکستانی شہریوں کے لیے جرمن ویزے کا حصول کتنا مشکل ہے؟
1 ستمبر 2019باون سالہ فاطمہ (فرضی نام) بیس برس قبل شادی کر کے جرمنی آئی تھیں۔ جرمنی آنے کے چھ ماہ بعد ہی ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا، تب سے وہ جرمنی میں اکیلی رہ رہی ہیں۔ اس دوران ان کی بہن اور بہنوئی کا بھی انتقال ہو گیا۔ فاطمہ نے اپنے سترہ سالہ بھانجے کو گود لینے کا فیصلہ کیا۔ وہ طویل عرصے تک ویزے کے لیے درکار کاغذات تیار کرتی رہیں لیکن اسلام آباد میں جرمنی کے سفارت خانے نے ان کے بھانجے کے ویزے کی درخواست مسترد کر دی۔ فاطمہ کے بقول وجہ یہ بتائی گئی کہ گود لینے کے حوالے سے پاکستانی قوانین کو جرمنی میں تسلیم نہیں کیا جاتا۔
چالیس سالہ نواز نے بھی اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو اپنی والدہ کے لیے جرمن ویزے کے حصول کی اپنی کوششوں کے بارے میں بتایا۔ نواز کے مطابق وہ گزشتہ بارہ برس سے جرمن شہری ہیں اور انہوں نے اپنی والدہ کو جرمنی بلانے کے لیے ہیلتھ انشورنس سمیت تمام درکار کاغذات کے ساتھ ویزے کی درخواست دی۔ تاہم ان کی والدہ کی ویزہ درخواست یہ کہہ کر مسترد کر دی گئی کہ وہ جرمنی سے واپس پاکستان نہیں لوٹیں گی۔
محمد بشارت اپنی بیوی کے لیے جرمن ویزا حاصل کرنے میں تو کامیاب رہے، لیکن انہیں بھی اس دوران کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بشارت کا کہنا ہے کہ ’فیملی ری یونین ویزا‘ حاصل کرنے کے لیے پاکستان میں جرمن سفارت خانے سے ویزا انٹرویو کے لیے وقت حاصل کرنے سے لے کر درکار کاغذات مکمل کرنے تک کا عمل کافی مشکل ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بشارت کا کہنا تھا، ’’سارا عمل انتہائی بیوروکریٹک ہے، ایک ایک چیز کی تصدیق کے لیے کئی دستاویزات مانگی جاتی ہیں۔ جس کی بظاہر وجہ پاکستان میں تیار کردہ دستاویزات کے مستند ہونے پر یقین نہ ہونا ہے، جو کہ کسی حد تک درست بات بھی ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو کی اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے والی ٹیم نے وفاقی جرمن دفتر خارجہ کے ویزا سے متعلق ڈیٹا کا تفصیلی جائزہ لیا۔ اس ڈیٹا میں سن 2014 سے لے کر سن 2017 تک دنیا بھر میں جرمن سفارت خانوں کی جانب طویل مدتی ویزا درخواستوں کا ریکارڈ شامل ہے۔ مختصر مدتی وزٹ ویزوں کا جائزہ اس رپورٹ میں شامل نہیں ہے۔
ویزا درخواستیں مسترد: پاکستان ایشیا میں چوتھے نمبر پر
مذکورہ عرصے کے دوران جرمنی میں تعلیم کے حصول اور فیملی ری یونین جیسے طویل مدتی ویزہ درخواستوں کی مجموعی تعداد پندرہ ہزار سے زائد تھی جن میں سے مسترد درخواستوں کی شرح 17 فیصد رہی۔
سن 2014 کے دوران اسلام آباد میں قائم جرمن سفارت خانے میں ایسی ویزا درخواستوں کی تعداد تین ہزار سے زائد تھی جن میں سے 18.5 فیصد مسترد کر دی گئیں۔ اس کے مقابلے میں کراچی میں ویزا درخواستوں کی تعداد قریب ساڑھے چار سو رہی جن میں سے قریب چودہ فیصد مسترد ہوئیں۔
سن 2016 میں جرمن سفارت خانے نے 14.1 فیصد طویل مدتی ویزا درخواستیں مسترد کیں جب کہ اس سے اگلے برس، یعنی سن 2017 میں 20.4 فیصد درخواستیں رد کر دی گئی تھیں۔
عالمی سطح پر صورت حال
سن 2014 تا 2017 کے اس عرصے کے دوران دنیا بھر کے مختلف ممالک میں قائم جرمن سفارت خانوں کو موصول ہونے والی ویزا درخواستوں کی تعداد میں 58 فیصد اضافہ ہوا۔ ان چار برسوں کے دوران طویل مدتی ویزا درخواستوں کی مجموعی تعداد گیارہ لاکھ سے زیادہ رہی۔ جب کہ اس دوران درخواستیں مسترد کیے جانے کی مجموعی شرح میں 131 فیصد اضافہ ہوا۔
سب سے زیادہ درخواستیں ایشا سے
طویل مدتی جرمن ویزے کے لیے سب سے زیادہ درخواستیں ایشیا سے جمع کرائی گئیں۔ ان چار برسوں کے دوران قریب پونے سات لاکھ افراد نے تعلیم، روزگار یا فیملی ری یونین جیسے طویل مدتی جرمن ویزے کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔ ایشیائی ممالک سے جمع کرائی گئی ایسی ویزا درخواستوں کے مسترد ہونے کی شرح دس فیصد رہی۔
ایشیا کے بعد دوسرے نمبر پر یورپی ممالک سے ویزا درخواستیں جمع کرائی گئیں۔ یہ تعداد ڈھائی لاکھ سے زائد رہی اور جرمن ویزا حاصل کرنے کے یورپی خواہش مندوں کی درخواستیں مسترد کیے جانے کی شرح بائیس فیصد رہی۔
ویزا درخواستوں کے مسترد کیے جانے کی شرح افریقی ممالک میں سب سے زیادہ (بائیس فیصد) رہی۔ مذکورہ عرصے کے دوران افریقی ممالک سے ایک لاکھ سے زائد افراد نے جرمن سفارت خانوں میں ویزا حاصل کرنے کے لیے درخواستیں جمع کرائی تھیں۔
جاپانی اور کوریائی شہریوں کے لیے ویزا آسان
ایشیا میں بنگلہ دیشی شہریوں کی درخواستیں مسترد ہونے کی شرح سب سے زیادہ (27 فیصد) رہی۔ دوسرے نمبر پر نیپال، تیسرے پر ویتنام جب کہ پاکستان چوتھے نمبر پر رہا۔
اس دوران ایشیائی ممالک سے جرمن ویزوں کے حصول کے لیے سب سے زیادہ درخواستیں چین اور اس کے بعد بھارت سے جمع کرائی گئیں۔
ویزوں کے اجرا میں فرق کیوں؟
ڈی ڈبلیو نے مختلف ممالک کے لیے ویزوں کے اجرا میں پائے جانے والے تفاوت کی وجوہات جاننے کے لیے جرمن دفتر خارجہ سے بھی رابطہ کیا، تاہم انہوں نے اس معاملے پر جامع انٹرویو دینے سے انکار کر دیا۔ لیکن دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں یہ ضرور کہا کہ متعلقہ سفارت خانے ویزا درخواستوں پر فیصلے ایک طے شدہ اور غیر جانبدار طریقے سے کرتے ہیں۔
ویزا حاصل کرنے کے خواہش مندوں کو ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ان کے پاس جرمنی میں قیام کے لیے کافی وسائل دستیاب ہیں۔ علاوہ ازیں ویزا حاصل کرنے کے لیے معقول وجہ کا ہونا بھی ضروری ہے۔ فیملی ری یونین کے لیے انہیں ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ان کی شادی جرمنی میں مقیم شخص کے ساتھ ہوئی ہے اور اس کے لیے تمام ضروری دستاویزی ثبوت بھی فراہم کرنا ہوتے ہیں۔
جرمن وزارت خارجہ کے مطابق جرمنی میں ملازمت حاصل کرنے والے افراد کو ویزا نہ دیے جانے کی شرح فیملی ری یونین کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی بتایا گیا کسی خاص ملک کے شہریوں کے لیے ویزے کے حصول کے لیے سختی یا نرمی نہیں برتی جاتی۔
تاہم ایشیائی اور افریقی ممالک میں جعلی دستاویزات ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ دستاویزات میں جعل سازی ہی کی وجہ سے جرمن سفارت خانے پاکستان، افغانستان، بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کے حکام کی جانب سے تصدیق شدہ دستاویزات قبول نہیں کرتے۔ تاہم چین، ایران اور انڈونیشیا کے حکام کی تصدیق کردہ دستاویزاتکو مستند تسلیم کیا جاتا ہے۔
مائگریشن کے امور کے ماہر محقق یوشین اولٹمر کا تاہم کہنا ہے کہ ویزا درخواستوں پر فیصلے کرتے وقت درخواست گزار کی شہریت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اوسنابرک یونیورسٹی سے وابستہ اولٹمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ درخواست گزار کے آبائی وطن کے سیاسی حالات کیسے ہیں، یہ بات ویزا جاری کرتے ہوئے پیش نظر رکھی جاتی ہے۔‘‘ علاوہ ازیں یہ سوال بھی پیش نظر رہتا ہے کہ ویزا جاری کیے جانے کی صورت میں درخواست گزار جرمنی کی سکیورٹی یا سماجی نظام کے لیے خطرہ تو نہیں بنے گا۔