پاکستانی طلباء کا کارنامہ، چودہ ممکنہ سیارچے دریافت کر لیے
11 دسمبر 2022پاکستان میں فلکیات اور سپیس سائنسز میں دلچسپی رکھنے والے افراد کی تعداد کافی زیادہ ہے مگر اس حوالے سے سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ چنیدہ تعلیمی اداروں میں فلکیات کے کورسز کروائے جارہے ہیں جہاں تحقیق کے لیے آلات کی کمی ہے۔امریکی خلائی تحقیقاتی ادارہ ناسا ہر برس انٹر نیشنل ایسٹرانامیکل سرچ کولیبریشن کے تعاون سے عام شہریوں کی فلکیاتی تحقیق میں شمولیت کے لیےسٹیزن سائنس انگیجمنٹ پروگرام منعقد کرواتا ہے۔ اکتوبر 2022 میں پہلی بار 40 پاکستانی طلباءنے اس پروگرام میں نا صرف حصہ لیا بلکہ 14ممکنہ سیارچے بھی دریافت کیے۔
اس تحقیق کے روح رواں انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی اسلام آباد میں ایروسپیس انجینئرنگ کے طالبعلم محمد رحموز صلاح الدین نے ڈوئچے ویلے سے اپنی دریافت پرخصوصی بات چیت کی ہے۔
پاکستانی طلباء کی دریافت کیا ہے؟
پاکستانی طلباء کی ٹیم کی سربراہی کرنے والے طالبعلم محمد رحموز صلاح الدین نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 2021ء میں انھوں نے بھارتی ٹیم کے ساتھ انٹرنیشنل ایسٹرانامیکل کولیبریشن کے تحت منعقد ہونے والے سٹیزن سائنس انگیجمنٹ پروگرام میں اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ شرکت کر کے پانچ ممکنہ سیارچے دریافت کیے تھے۔ ناسا کے تعاون سے چلنے والا یہ پروگرام دنیا بھر میں فلکیات کا شوق رکھنے والے افراد کو انتہائی اعلی معیار کا تحقیقی ڈیٹا اور سہولیات فراہم کرتا ہے تاکہ نیا ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آسکے۔ نئے سیارچوں کی دریافت اس پروگرام کی مرکزی تحقیق ہے۔
رحموز بتاتے ہیں کہ اس سے انھیں تحریک ملی کہ پاکستانی طلباء کو بھی اس مقابلے میں شریک ہونا چاہیے۔ انھوں نے آل پاکستان ایسٹیرائڈ سرچ کمپین کے نام سے ایک مہم کی بنیاد رکھی جس کے تحت 21 اکتوبر سے 15 نومبر 2022 تک پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں سے چالیس طلباء و طالبات نے پہلی دفعہ سٹیزن سائنس انگیجمنٹ پروگرام میں حصہ لے کر 14 ممکنہ سیارچے دریافت کیے۔
سیارچوں کی دریافت کس طرح کی جاتی ہے؟
رحموز صلاح الدین نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سٹیزن سائنس انگیجمنٹ پروگرام میں عام افراد کو سیارچوں کی دریافت کے لیے تربیت کے علاوہ " ایسٹرومیٹریکا" نامی سوفٹ ویئر بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس سوفٹ ویئر میں موجود پیرا میٹرز کی مدد سے طلباء اندازہ لگاتے ہیں کہ متعقلہ اجرام فلکی سیارچہ ہو سکتا ہے یا نہیں۔
ان سیارچوں کا سٹیٹس کیا ہے؟
رحموز صلاح الدین نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 2021 میں بھارتی ساتھیوں کے ساتھ مل کر جو پانچ سیارچے انھوں نے دریافت کیے تھے وہ ابھی تک عبوری سٹیٹس پر ہیں ۔ رواں برس امریکی جزیرے ہوائی کی خلائی دوربین کے فراہم کردہ ڈیٹا کی مدد سے جن چودہ ممکنہ سیارچوں کو پاکستانی طلباء نے دریافت کیا ہے وہ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں۔
رحموز کے مطابق اگلے چھ سے دس برسوں میں ناسا اور دنیا بھر سے انتہائی سینئر سائنسدان ان پر مزید تحقیق کریں گے جن کی طرف سے منظوری کے بعد ا نھیں " نمبرڈ" سٹیٹس دے کر سمتھ سونین آبزرویٹری کے مائنر پلینٹ سینٹر کے کیٹیلاگ کا حصہ بنا یا جائے گا۔ اس کے بعد ہمیں ان کے نام خود رکھنے کے حقوق بھی حاصل ہوں گے کیونکہ یہ ہماری دریافت ہیں۔
سائنسدان سیارچوں پر تحقیق میں اتنی دلچسپی کیوں رکھتے ہیں؟
رحموز صلاح الدین نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ایسٹیرائڈ یا سیارچے دراصل ہمارے نظام شمسی کی تشکیل کے وقت فاضل بچ جانے والا ملبہ ہیں۔ مریخ اور مشتری کے درمیان سیاروں کی بیلٹ سے چھوٹے بڑے سائز کے سیارچے عموماﹰزمین کی طرف بھی آتے رہتے ہیں۔ان پر تحقیق سے سائنسدانوں کو سیارۂ زمین کی ابتدا میں ہیئت اور یہاں زندگی کی آغاز سے متعلق اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ نظام شمسی کے دیگر سیاروں اور دور دراز کے ستاروں کے گرد محو ِ گردش سیاروں پر تحقیق میں بھی معاونت کرتے ہیں۔
مستقبل میں پاکستان میں فلکیاتی تحقیق سے متعلق کن منصوبوں پر کام کر رہے ہیں؟
رحموز صلاح الدین نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے حال ہی میں آن لائن فلکیاتی جریدے " کاسمک ہیریلڈ " کا اجراء کیا ہے جس میں انسٹی آف سپیس ٹیکنالوجی اسلام آباد کے انڈر گریجوئیٹ طلبا ء کے علاوہ دیگر یونیورسٹیوں سے طلباء نے بھی آرٹیکلز لکھے ہیں۔ یہ طلباء میں ذاتی تحقیق اور لکھنے کا رجحان پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ہر شہر سے طلباء اس جریدے کے لئے فلکیاتی مضامین لکھیں۔
رحموز کے مطابق پاکستانی طلباء کی خلائی سائنس اور فلکیات میں دلچسپی بہت زیادہ ہے اس کو مزید پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو سکول کی سطح سے فلکیات کا مضمون پڑھایا اور دوربین کا استعمال سکھایا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے بڑے شہروں میں سپیس میوزیم، پلینیٹیریم اور آبزرویٹری قائم کی جائیں جہاں عام افراد خصوصا طلباء کا داخلہ مفت ہو۔
رحموز کہتے ہیں کہ لا محالہ اس کے لئے حکومت کو تعلیمی اور تحقیقی بجٹ بڑھانا ہوگا مگر خلائی سائنس میں تیز تر پیش قدمی کے بغیر پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک جیسے بھارت، چین، وغیرہ سے بہت پیچھے رہ جائے گا۔ اس مقصد کے لیے سپیس سیکٹر میں پرائیویٹ سٹارٹ اپ کی حوصلہ افزائی انتہائی ضروری ہے۔