پاکستانی فوج کا چھ بلوچ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ
2 اکتوبر 2024بدھ دو اکتوبر کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق ااسکیورٹی فورسز کی طرف سے یہ چھاپہ مار کارروائی افغانستان سے ملحق صوبہ بلوچستان کے علاقے ہرنائی میں کی گئی اور اس میں بلوچ لبریشن آرمی کے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا۔
تاہم اس بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کارروائی کب کی گئی؟
اس کارروائی پر پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی کی طرف سے سکیورٹی فورسز کی تعریف کی گئی ہے۔ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ ''دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خاتمے تک جنگ جاری رکھی جائے گے۔‘‘
کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے رواں برس اگست کے دوران صوبے بھر میں حملے کرتے ہوئے درجنوں شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔
ابھی گزشتہ اتوار کو ہی مسلح افراد نے بلوچستان کے علاقے موسیٰ خیل میں تعمیراتی کارکنوں کے ایک کیمپ پر دھاوا بولتے ہوئے بلڈوزر اور دیگر مشینری کو نذر آتش کر دیا تھا۔ ابتدائی طور پر پولیس نے کہا کہ حملہ آوروں نے 20 مزدوروں کو اغوا کر لیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ حملہ آوروں سے بچنے کے لیے موقع سے فرار ہو گئے تھے۔
پاکستان: مبینہ خودکُش بمبار نرس میڈیا کے سامنے پیش
پاکستان کا جنوب مغربی صوبہ بلوچستان ایک طویل عرصے سے شورش کا شکار ہے۔ اس صوبے میں متعدد علیحدگی پسند گروپ حملے کرتے رہتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک گروپ بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی کا نعرہ بھی بلند کرتے ہیں۔
اربوں ڈالر مالیت کے بڑے منصوبوں کے باوجود بلوچستان پاکستان کا سب سے غریب اور سب سے کم آبادی والا صوبہ ہے۔ قدرتی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا الزام عائد کرنے والے علیحدگی پسند گروہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پرتشدد کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اسلام آباد حکومت اگرچہ صوبہ بلوچستان میں شورش کو ختم کرنے کے لیے عسکری کارروائیاں بھی کرتی رہتی ہے لیکن وہاں سکیورٹی کی حالت مخدوش ہی بتائی جاتی ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند کئی مرتبہ پاکستان میں چینی مفادات کو بھی نشانہ بنا چکے ہیں۔
ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق رواں سال کے پہلے سات ماہ میں بلوچستان میں دہشت گردی سے متعلق 250 سے زائد واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔
ا ا / ا ب ا (اے پی، اے ایف پی)