پاکستانی مہاجر کی ہلاکت کے بعد درجنوں پناہ گزینوں کی منتقلی
1 فروری 2017موریا کیمپ کے ایک خیمے میں بیس برس کے پاکستانی تارک وطن کی موت کیا ہوئی کہ یونانی حکومت میں ہلچل پیدا ہو گئی۔ ایتھنز حکومت نے موریا کیمپ کی مجموعی حالت کو بہتر کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ حکام کے مطابق پاکستانی تارک وطن کی موت خیمے میں جلتے چولہے کی وجہ سے جان لیوا کاربن مونو آکسائیڈ کے جمع ہونے سے ہوئی ہے۔
یونان کی سرکاری نیوز ایجنسی اے این اے ک مطابق ڈیڑھ سو افراد کو فوری طور پر موریا کیمپ سے دوسرے مقامات لے جایا گیا ہے اور اِس کیمپ کے اندر سونے کے لیے بہتر خیموں کی تنصیب کا عمل بھی حکومتی ہدایت پر شروع کر دیا گیا ہے۔ یونان کی وزارتِ مہاجرت کی ایک اہلکار انتھی کاران جیلی کا کہنا ہے کہ اس وقت ڈھائی سو افراد موریا کیمپ میں ہیں اور ہر ایک کو ایک خیمہ دیا گیا ہے۔
یونانی حکام کے مطابق پچاس مہاجرین کو ایک بڑے بحری جہاز پر منتقل کر دیا گیا ہے، جو کہ ایک قریبی بندرگاہ پر لنگرانداز ہے۔ موریا کیمپ سے ایک سو مہاجرین کو ایک محفوظ اور بہتر کیمپ میں لے جایا گیا ہے۔ یونان کے امیگریشن کے وزیر یانِس مُوزالاس نے کہا ہے کہ موریا کیمپ میں گرم خیموں کی تنصیب کا حکم دے دیا گیا ہے۔
موریا کیمپ کی خراب صورت حال پر امدادی تنظیموں انٹرنیشنل ریڈ کراس اور ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے خدشات بھی سامنے آ چکے ہیں لیکن فوری طور پر تبدیلیوں کی وجہ چھ ایام کے دوران تین ہلاکتیں ہیں۔ ان میں ایک پاکستانی اور دوسرے دو مصر اور شام سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک مہاجر نازک حالت میں ہسپتال میں داخل ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین بھی موریا کیمپ کی خر اب صورت حال پر ایتھنز حکومت سے اپیل کر چکا ہے۔
یونانی میڈیا کے مطابق ان تین افراد کی ہلاکت کی وجہ اُن کے خیموں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس بھر جانے سے ہوئی ہے۔ شدید سردی سے بچنے کے لیے خیمے سے باہر جلانے والے چولہے کو انہوں نے اندر رکھ لیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ یونان کے مختلف علاقوں میں ساٹھ ہزار مہاجرین مقیم ہیں اور اِن کا تعلق شام، عراق، پاکستان اور افغانستان سے ہے۔