'پاکستانی کشمیر کی واپسی کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہے'
27 جون 2023بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے جموں میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے وطن کے مسائل پر توجہ مرکوز کرے اور یہ کہ بھارت کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو واپس لینے کے لیے زیادہ کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
بھارت اور امریکہ کے مشترکہ بیان پر پاکستان کا احتجاج
انہوں نے کہا کہ جب بھی ضرورت پڑی، تو، ''بھارت سرحد عبور کر کے، شدت پسندوں کا تعاقب کر کے انہیں ختم کرتا رہے گا۔''
بھارتی کشمیر: فوج پر مسجد میں مسلمانوں سے جے شری رام کے نعرے لگوانے کا الزام
وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ امریکہ کے دوران واشنگٹن اور نئی دہلی کے مشترکہ بیان پر پاکستان کے رد عمل کا حوالہ دے رہے تھے۔ اس موقع پر راج ناتھ سنگھ نے کہا، ''میں پاکستان کو واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ اسے بار بار کشمیر کا مسئلہ اٹھانے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔''
اوباما نے تو 'چھ مسلم ممالک پر بمباری' کی تھی، بھارتی وزیر
ان کا مزید کہنا تھا، ''ہمیں پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کو واپس لینے کے لیے بہت زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ بھارت کے ساتھ اتحاد کا مطالبہ خود وہیں سے شروع ہو گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے جموں و کشمیر کے کئی علاقوں پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔
اوباما کا بھارت میں 'اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ' پر زور اور بائیڈن کی خاموشی
انہوں نے پاکستان پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا، ''کشمیر کی رٹ لگا کر آپ کو کچھ بھی ملنے والا نہیں ہے، آپ پہلے اپنا گھر سنبھالیے، وہاں جس طرح کے حالات ہیں، اس میں تو کچھ بھی ہو جائے، اس پر حیرانی نہیں ہونا چاہیے۔''
انہوں نے دعوی کیا، ''جموں و کشمیر کا ایک بڑا حصہ پاکستان کے زیر قبضہ ہے، وہاں کے لوگ دیکھ رہے ہیں کہ اس طرف کے لوگ کس طرح امن و چین کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستانی حکومت وہاں کے لوگوں پر ظلم کرتی ہے، تو انہیں تکلیف ہوتی ہے۔''
راجناتھ سنگھ نے کہا کہ ایک وقت تھا جب امریکہ ''دہشت گردی کو ایک سیاسی ہتھیار'' کے طور پر دیکھتا تھا، لیکن 9/11 کے دہشت گردانہ حملے نے ان کا نقطہ نظر بدل دیا اور آج امریکہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ دہشت گردی انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے۔ اس نے اس حوالے سے بھارتی موقف کی تائید کی ہے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں مودی کے دورہ امریکہ کے دوران صدر بائیڈن اور مودی نے اپنے مشترکہ بیان میں سرحد پار سے ''دہشت گردی'' کی شدید مذمت کی تھی اور پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے فوری کارروائی کرے کہ اس کے ''زیر کنٹرول کوئی بھی علاقہ دہشت گردانہ حملوں کے لیے استعمال نہ ہو۔''
پاکستان نے اس مشترکہ بیان کے رد عمل میں اپنا سخت بیان جاری کیا اور کہا کہ بھارت اسلام آباد پر انتہا پسندی کے ''الزامات کو کشمیر کی صورتحال اور بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔''