پروگرام میں فوجی بوٹ: سیاست کا جنازہ یا صحافت کا؟
15 جنوری 2020پاکستان کے وفاقی وزير برائے واٹر ريسورسز فيصل واڈا نے آرمی چيف کی مدت ملازمت ميں توسيع کے بل کی اپوزيشن کی جانب سے حمايت پر ايک فوجی بوٹ ميز پر رکھ کر کڑی تنقيد کی۔ ان کی تنقيد کا طريقہ کار ملک ميں نہ صرف صحافت بلکہ سماجی رويوں پر بھی کئی سوالات اٹھاتا ہے۔ واڈا نے ملک کے ايک نجی ٹيلی وژن چينل کے پروگرام کے دوران چودہ جنوری کو ايک جوتا ميز پر رکھ کر حزب اختلاف کی پاکستان مسلم ليگ )ن( کے سياسی طرز عمل کا اس سے موازنہ کيا۔ مقامی ذرائع ابلاغ پر نشر کردہ رپورٹوں کے مطابق فيصل واڈا نے کہا، ’’ميں اب يہ بوٹ ہر ٹاک شو ميں ساتھ لے کر جاؤں گا۔ پی ايم ايل اين ايسی ہی جمہوری پارٹی ہے اور يہ جوتے کو چومنے کے لیے ليٹ جاتے ہيں۔‘‘ پاکستانی وفاقی وزير برائے واٹر ريسورسز واڈا نے پاکستان مسلم ليگ کے نعرے ’ووٹ کو عزت دو‘ پر تنقيد کی اور کہا کہ در اصل يہ جماعت ’بوٹ کو عزت دو‘ کی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے۔
فيصل واڈا کے اس رويے پر پروگرام ميں شريک پی ايم ايل اين کے رہنما جاويد عباسی اور پی پی پی کے قمر زمان کائرہ دونوں نے احتجاجاً پروگرام چھوڑ ديا اور رخصت ہو گئے۔ کائرہ کے مطابق وفاقی وزير واوڈا کی زبان اور رويہ دونوں ہی ناقابل قبول تھے۔
اس پيش رفت کے بعد پاکستان کے کئی حلقوں ميں اس پر بات ہونے لگی اور ميڈيا پر اس طرز کے رويوں پر ايک بحث چھڑ گئی۔ يہاں سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ آيا ايک ٹيلی وژن پر گفتگو کے دوران اپنے سياسی مخالفين اور ملکی حزب اختلاف پر تنقيد کے ليے يہ طريقہ کار مناسب ہے؟
اس بارے میں پاکستان کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ وقت ہے جب پاکستان کے میڈیا میں ایڈیٹوریل کنٹرول ناپید ہو چکا ہے۔ ان کے بقول پروگرام پروڈیوسر کا کام ہوتا ہے کہ وہ اس بات پر نظر رکھے کہ پروگرام میں کس قسم کا مواد جا رہا ہے۔ جس پروگرام میں یہ واقعہ پيش آيا، اس کے میزبان کاشف عباسی صحافتی حلقوں ميں اچھی ساکھ کے حامل ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ مظہر عباس کے مطابق اس پروگرام میں ایسا ہونا مایوس کن اور قابل افسوس ہے۔
ڈی ڈبليو سے بات چيت ميں انہوں نے کہا، ’’کاشف عباسی کو چاہیے تھا کہ وہ فیصل واڈا کو روکتے، اگر وہ ایسا کرتے تو اس بدمزگی سے بچا جا سکتا تھا۔‘‘ عباس نے اس بات کی طرف سے توجہ دلائی کہ فیصل واڈا کی جانب سے متنازعہ رویہ ظاہر کرنے کا يہ پہلا واقعہ نہيں تھا۔ مظہر عباس نے کہا، ’’پاکستانی میڈیا میں اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ مالکان کی جانب سے ایسے واقعات کو روکنے کی بجائے، حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ ایسی بد تہذیبی کو نشر مکرر میں بھی سنسر نہیں کیا جاتا اور ریٹنگ حاصل کرنے کے لیے بار بار چلایا جاتا ہے۔ اس وجہ سے مجموعی طور پر میڈیا کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔‘‘
اس بارے میں سیینئر صحافی اور تجزیہ کار عامر ضیاء سے ڈی دبلیو نے رابطہ کیا، تو ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ ہمارے میڈیا کی اخلاقیات پر سوالیہ نشان ہے۔ ’’کوئی بھی چیز اسٹوڈیوز کے اندر اینکر یا مینجمنٹ کی اجازت کے بغیر نہیں آ سکتی۔ سیاست دان کے اس عمل نے پاکستانی سیاست کا جنازہ نکال دیا ہے اور صحافی نے جوتا میز پر رکھنے کے عمل کو نہ روک کر پاکستانی صحافت کا جنازہ نکال دیا ہے۔‘‘ ان کے بقول سیاستدان کو ایسا عمل کرنے سے روکا جا سکتا تھا۔ پروگرام میں وقفے کے دوران دیگر سیاستدانوں کو پروگرام چھوڑ کر جانے سے روکا جا سکتا تھا لیکن سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایسا کیوں نہ کیا گیا۔
عامر ضياء سے جب يہ سوال پوچھا گيا کہ کيا پاکستانی صحافی برادری اس معاملے پر کوئی ایکشن لے گی، تو ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی تو یہ نقطہ آغاز ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔‘ ضياء کے بقول، ’’زیادہ سے زیادہ چند صحافیوں کی جانب سے چند مذمتی جملے آ جائیں گے۔ ایڈیٹر کا عہدہ ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ صحافتی اقدار ملیا میٹ ہو رہی ہیں اور جو لوگ اس چیز کو ٹھیک کر سکتے ہیں، ان کی جانب سے سدھارن کی کوئی بات ہی نہیں ہو رہی۔‘‘