پری پول دھاندلی کے الزامات: الیکشن کی شفافیت پر سوالات؟
7 دسمبر 2023قبل از انتخاب دھاندلی کیا ہے؟
الیکشن کے امور پر تحقیق کرنے والی پاکستان کی ماہر سیاسیات اور یونیورسٹی آف لاہور کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر کشور منیر کہتی ہیں کہ الیکشن سے پہلے الیکشن کے نتائج کسی ایک پارٹی یا امیدوار کے حق میں کرنے کے غیر قانونی اقدامات کو قبل از الیکشن دھاندلی کہتے ہیں۔
ڈاکٹر کشور کے بقول دھاندلی کی تین اقسام ہوتی ہیں، جن میں قبل از انتخاب دھاندلی، الیکشن والے دن اور پولنگ ڈے پر جانے والی دھاندلی شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ الیکشن میں مقررہ حد سے زیادہ اخراجات، من پسند حلقہ بندیاں، ووٹروں یا عملے کو رشوت دینا، کسی مخصوص امیدوار کو زیادہ ترقیاتی فنڈز سے نوازنا، کسی جماعت کے امیدواروں کو جبری جماعت سے الگ کرنا، کسی سیاسی جماعت کو توڑ کر اس کے ووٹ بنک کو نقصان پہنچانے کے لیے غیر قانونی طور پر نئی پارٹی یا اتحاد بنوانا، میڈیا کو استعمال کرکے کسی پارٹی یا اس کے لیڈر کی کردار کشی کرکے اس کا امیج متاثر کرنا یا ان پر جھوٹے مقدمات بنوانا یہ سبھی اعمال پری پول دھاندلی میں شمار کیے جاتے ہیں۔
لیول پلیئنگ فیلڈ میسر نہیں؟
فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک کے بانی اور سابق عہدیدار سرور باری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں حصہ لینے کے یکساں مواقع میسر نہیں ہیں۔ ان کے بقول ایک پارٹی کے افراد مقدمات اور پولیس کے چھاپوں کی زد میں ہیں جبکہ اس کے رہنما یا تو چھپے ہوئے ہیں یا پھر جیلوں میں ہیں اور اس پارٹی کے دفاتر بھی سیل کیے جا رہے ہیں۔
گوہر خان پاکستان تحریک انصاف کے نئے سربراہ منتخب
کیا پاکستان میں آزادانہ اور منصفانہ الیکشن ممکن ہوسکیں گے؟
سرور باری کے بقول اس پارٹی کے رہنماؤں کو عدالتوں سے ضمانت ملنے کے باوجود رہائی نہیں مل رہی۔ اس سے پہلے پاکستان تحریک انصاف اپنے امیدواروں کی گرفتاریوں، جبری گمشدگیوں، نگران حکومت کی سختیوں، پارٹی کنونشنوں پر پولیس حملوں اور پارٹی کے خلاف ریاستی مشینری کے استعمال کو پری پول دھاندلی کے منصوبے کا حصہ قرار دے چکی ہے۔
''قابل اعتراض‘‘ حلقہ بندیاں
سرور باری بتاتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے کی جانے والی انتخابی حلقہ بندیوں کے خلاف سیاسی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے تحفظات نے بھی آئندہ الیکشن کی شفافیت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔
یہ تاثر عام ہے کہ ان انتخابی حلقہ بندیوں سے ایک بڑی اور طاقتور حلقوں کی پسندیدہ جماعت کو فائدہ پہنچایا گیا ہے۔ سرور باری کے بقول ابھی تک چودہ سو سے زائد افراد ان انتخابی حلقہ بندیوں پر اعتراضات فائل کر چکے ہیں جو کہ اسی فی صد انتخابی حلقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
سرور باری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''قانون کے مطابق حلقہ بندیاں ایک ضلع کی حدود سے ملحقہ دوسرے ضلع کی حدود سے منسلک ہو سکتی ہیں لیکن اس مرتبہ ایسے حلقے بھی بنا دیے گئے ہیں، جو دو صوبوں کی حدود پر مشتمل ہیں۔ یہ قانونی طور پر درست نہیں ہے۔‘‘
انتخابی دھاندلی کے 163 طریقے
سرور باری نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ حال ہی میں ان کے ادارے کی طرف سے کی جانے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے تقریبا 163 طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ان میں پری پول دھاندلی کے اکاون، پولنگ والے دن دھاندلی کے پچھتر اور پوسٹ پولنگ دھاندلی والے گیارہ طریقے شامل ہیں۔
پاکستان میں انتخابی مہم یا سیاسی بیانیے کی جنگ؟
پيپلز پارٹی اور ن ليگ ميں اقتدار کی کشمکش
سینئر صحافی عدنان عادل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ الیکشن سے پہلے بڑا ووٹ بنک رکھنے والی برادریوں اور گروہوں کے لیڈروں کو انتظامیہ کی طرف سے بلا کر سیاسی وابستگی بدلنے کے لیے دباؤ ڈالنا اور میڈیا کے یکطرفہ استعمال سے کسی پارٹی کی متوقع جیت کا تاثر بنا دینا بھی قبل از انتخاب دھاندلی ہے۔ آج کل پاکستان کی کئی سیاسی جماعتیں انتخابی دھاندلی کے حوالے سے ایسے کئی خدشات کا اظہار کر رہی ہیں۔
ناقص انتخابی فہرستیں
طریقہ حکمرانی کے امور پر نگاہ رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم پتن کے سربراہ سرور باری نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ الیکشن سے پہلے الیکشن کمیشن کی طرف سے تمام اہل ووٹروں کا انتخابی فہرستوں میں اندراج نہ کرنا بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔
ان کے بقول اس وقت انتخابی فہرستوں میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ووٹرز ایسے ہیں جو ووٹ دینے کے اہل تو ہیں لیکن ان کا بطور ووٹر اندراج نہیں ہوا ہے۔ اپر پنجاب کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مری میں اٹھتر فیصد آبادی کا اندراج بطور ووٹرز ہو سکا ہے جبکہ جہلم میں پچھتر فی صد اور اسی طرح راوالپنڈی، تلہ گنگ چکوال اور خوشاب جیسے علاقوں میں پینسٹھ سے پچھتر فی صد آبادی کے ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔
سرور باری کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان میں یہ شرح اور بھی کم ہے۔ ان کے مطابق وہاں تو اندراج ہونے سے ہی رہ گیا ہے یا پھر ان کو جان بوجھ کر شامل نہیں کیا گیا ہے، ’’اسی طرح کوئی پچاس ساٹھ لاکھ ووٹرز ایسے ہیں جن کو ووٹرز لسٹ میں نہیں ہونا چاہیے۔ ان میں سے کچھ لوگ وفات پا چکے ہیں، ڈبل شناختی کارڈز کی وجہ سے کچھ کا دو دفعہ اندراج ہو چکا ہے جبکہ کچھ لوگ نئی جگہوں پر منتقل ہو چکے ہیں۔ ‘‘
یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں؟
پنجاب میں وزیر اعلی کے مشیر اور الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حلقہ بندیوں بر چودہ سو اعتراضات کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ گزشتہ الیکشن سے پہلے یہ تعداد دو ہزار سے بھی زیادہ تھی۔ انہوں نے واضح کیا کہ الیکشن کمیشن ان اعتراضات کو دیکھ کر فیصلہ کر دے گا، جس کو پھر بھی اطمینان نہ ہو وہ ہائی کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہ دینے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ صرف ان لوگوں کو روکا جا رہا ہے، جو نو مئی کے واقعات میں ملوث تھے جبکہ باقی سب کو سیاست میں حصہ لینے اور سیاسی سرگرمیاں کرنے کی اجازت ہے۔
انتخابی دھاندلی کو کیسے روکا جائے؟
ڈاکٹر کشور منیر کہتی ہیں کہ دھاندلی روکنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن، سیاسی جماعتیں، عدلیہ، میڈیا اور سول سوسائٹی الیکشن کے امور کی کڑی نگرانی کریں۔ عوام کو الیکشن کے امور کے بارے میں درست آگاہی فراہم کی جائے اور الیکشن کے عملے کو صحیح طریقے سے تربیت دی جائے، غیر جانب دار نگران حکومت بنائی جائے اور پولنگ کے عملے کو متعلقہ حلقے میں کسی امیدوار سے فیور لینے سے باز رکھا جائے۔ ان کے نزدیک الیکٹرانک مشینوں کا استعمال بھی دھاندلی کو روکنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
نظریہ کہاں بھلا؟ بس اقتدار میں آنے کی کوشش ہے
الیکشن کمیشن کے فیصلے پر سوالات
عدنان عادل کہتے ہیں کہ اگر میڈیا ریاستی کنٹرول سے اپنے آپ کو آزاد کر لے، لوگ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے نکلیں اور پولنگ ایجنٹس پوری طرح تربیت یافتہ ہوں تو پھر پولنگ والے دن دھاندلی کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔ ان کے خیال میں اگر سیاسی جماعتیں خود ہی شفاف الیکشن پر قائل ہو جائیں تو پھر کسی دوسرے کے لیے دھاندلی ممکن نہیں رہے گی۔
عدنان عادل سمجھتے ہیں کہ ماضی میں جس بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوتی رہی ہے۔ اب ڈیجیٹل میڈیا کی موجودگی میں اتنے بڑے پیمانے پر دھاندلی ممکن نہیں ہے۔
سرور باری کا بھی کہنا ہے کہ اگر انتخابی دھاندلی کے خلاف عدلیہ اپنا کردار درست اور سرگرم طریقے سے نبھائے، سول سوسائٹی آواز اٹھائے، میڈیا بغیر خوف کے دھاندلی کی رپورٹنگ کرے اور عوام کو عالمی برادری بھی نوٹس لے تو دھاندلی میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انتخابی فہرستوں پر اعتراضات پر شروع ہونے والے مقدمات الیکشن میں التوا کا باعث بن سکتے ہیں۔ لیکن سرور باری سمجھتے ہیں کہ جس نے الیکشن ملتوی کروانے ہیں اس کو کسی بہانے کی ضرورت نہیں۔ اس سے پہلے کیا سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود الیکشن ملتوی نہیں کیے گئے؟ ان کے خیال میں دھاندلی سے بنائی جانے والی حکومت ملک میں سیاسی استحکام نہیں لا سکتی۔ پاکستان الیکشن کمیشن کے سیکرٹری بار بار رابطہ کرنے پر بھی اپنے موقف کے لیے دستیاب نہ ہوسکے۔