پناہ گزینوں کی حالت ابتر ہے، ایمنسٹی کی سالانہ رپورٹ
23 مئی 2013یہ رپورٹ بدھ کو جاری کی گئی اور اس میں 2012ء کے حالات و واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس کے آغاز پر رجسٹرڈ پناہ گزینوں کی تعداد 12 ملین تھی جو اس وقت 15 ملین ہو چکی ہے۔
ایمنسٹی کے مطابق اس کے علاوہ 214 ملین تارکین وطن ایسے ہیں جنہیں اپنے آبائی یا میزبان ملکوں کی جانب سے تحفظ حاصل نہیں ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ پناہ گزینوں، تارکین وطن اور اکثر تنازعوں اور مظالم کا شکار رہنے والے بے گھر شہریوں کو ایسے حالات کا سامنا رہتا ہے، جن میں ان کے حقوق کو مسلسل نظر انداز یا ردّ کیا جاتا ہے۔
اس رپورٹ کے ساتھ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل سلیل شیٹی کا بیان بھی جاری کیا گیا ہے، جس میں ان کا کہنا ہے: ’’تنازعات کو مؤثر طور پر حل کرنے میں ناکامی عالمی پسماندہ طبقے کو جنم دے رہی ہے۔ شورش زدہ حالات سے فرار ہونے والوں کے حقوق کو کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ متعدد حکومتیں ایمیگریشن کنٹرول کے نام پر بارڈر کنٹرول کے قانونی اقدامات سے کہیں بڑھ کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہی ہیں۔‘‘
شمالی کوریا، مالی، سوڈان، عوامی جمہوریہ کانگو اور شام ان ملکوں میں شامل ہیں جہاں لوگ تنازعوں کی وجہ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس قدر مشکل حالات میں اپنے وطن چھوڑنے والے متعدد پناہ گزینوں اور تارکینِ وطن کو نئے ملکوں میں کھلے دِل سے خوش آمدید نہیں کہا جاتا۔
اس رپورٹ میں یورپی یونین اور شمالی افریقی ملکوں کے درمیان بارڈر کنٹرول کے معاہدوں کی مثال دی گئی ہے، جن کا مقصد پناہ کے متلاشی افراد کو یورپ سے دُور رکھنا ہے۔ اس کے مطابق ان میں اس بات کی مناسب طریقے سے یقینی نہیں بنایا گیا کہ واپس بھیجے جانے پر پناہ گزینوں کے حقوق کا احترام کیا جائے۔ اس تجزیے کے مطابق حراستی مراکز میں بھی پناہ گزینوں کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
شیٹی کہتی ہیں کہ تارکین وطن کو بھی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے: ’’لاکھوں تارکینِ وطن کو بدسلوکی کے ماحول میں دھکیلا جا رہا ہے، جو جبری مشقت اور جنسی زیادتی جیسے حالات سے بھرا پڑا ہے۔ اس کی وجہ ایمیگریشن مخالف پالیسیاں ہیں۔‘‘
ng/ah(AFP, AP)