پڑوسی مسلمان یا ہم جنس پرست، اکثر جرمنوں کی ترجیح کیا؟
16 اگست 2018ایک تازہ عوامی جائزے کے نتائج کے مطابق جرمن شہری مسجد، حجاب اور مہاجرین کی رہائش گاہوں کے خلاف ہیں۔ امریکی جریدے ’پلے بوائے‘ کی جانب سے جرمنی میں کرائے گئے اس سروے کے نتائج سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جرمنی میں مختلف جنسی رجحانات رکھنے والے مردوں اور خواتین کی سماجی مخالفت میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے۔
اس سروے میں ایک ہزار سے زائد جرمن شہریوں سے ان کی رائے پوچھی گئی تھی۔ ان میں سے ستر فیصد سے زائد باشندوں کا کہنا تھا کہ اگر ان کی اولاد ہم جنس پرست ہو، تو انہیں اس بات سے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ اتنے ہی جرمن شہریوں کی یہ رائے بھی تھی کہ ٹرانس جینڈرز کے لیے تبدیلی جنس کی سرجری کا خرچہ انشورنس کمپنیوں کو برداشت کرنا چاہیے۔
ہوموفوبیا میں کمی
جرمنی میں ہم جنس پرستوں سے خوف یا ’ہوموفوبیا‘ کے بارے میں گزشتہ کئی دہائیوں سے سروے کیے جا رہے ہیں۔ اپنی نوعیت کے اس تازہ ترین سروے کے نتائج میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ جرمن معاشرے میں ہم جنس پرستی سے متعلق عدم برداشت تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔
سن 1949 میں کرائے گئے ایسے ایک سروے میں 53 فیصد شادی شدہ مرد جرمن شہریوں نے ہم جنس پرستی کو بیماری قرار دیا تھا جب کہ 1976 میں صرف پچیس فیصد مردوں کی رائے ایسی تھی۔
سن 1991 میں چھتیس فیصد شہریوں کا کہنا تھا کہ وہ کسی ہم جنس پرست کے پڑوس میں رہنا پسند نہیں کریں گے لیکن سترہ برس بعد 2008ء میں ایسے جرمنوں کی تعداد محض 13 فیصد رہ گئی تھی۔
اسلاموفوبیا کا رجحان برقرار
ہوموفوبیا میں مسلسل کمی کے باوجود جرمن شہریوں میں پائے جانے والے اسلاموفوبیا (یا اسلام سے خوف) کی شرح اب بھی اتنی ہی ہے جتنی کہ سن 1990 کی دہائی میں تھی۔
’پلے بوائے‘ کی جانب سے کرائے گئے اس عوامی جائزے میں شامل 16.6 فیصد جرمن شہریوں کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گھر کے قریب کسی گرجا گھر کی موجودگی پسند نہیں کرتے۔ اپنے پڑوس میں کسی یہودی عبادت گاہ کی موجودگی کی مخالفت کرنے والے جرمن شہریوں کی شرح ایک چوتھائی تھی۔
لیکن قریب چھپن فیصد جرمنوں کا کہنا تھا کہ وہ اپنے پڑوس میں کسی مسجد کی موجودگی کے خلاف ہیں۔ اسی طرح ستر فیصد کی رائے میں پبلک اسکولوں میں خواتین اساتذہ کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کی جانا چاہیے۔
جرمن معاشرے میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں پائے جانے والے اسی رویے کی عکاسی حال ہی میں قومی فٹبال ٹیم کے ترک نژاد کھلاڑی میسوت اوزل کے معاملے میں بھی دکھائی دی تھی۔ اوزل نے قومی ٹیم کو خیرباد کہہ دیا تھا اور بعد ازاں جرمن سوشل میڈیا میں مسلمان مخالف اور نسل پرستی کا معاملہ اجاگر کرنے کے لیے #MeTwo تحریک بھی شروع ہو گئی تھی۔
جرمن شہر کوبلنز کی یونیورسٹی میں معاشرتی نفسیات کی استاد ڈاکٹر میلانی سٹیفنز نے جرمن معاشرے میں ہم جنس پرستوں کی قبولیت میں اضافے اور اسلاموفوبیا کے رجحان بڑھنے کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’کچھ لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اسلام جرمنی کی لبرل معاشرتی اقدار کے لیے خطرہ ہے۔ اسی تاثر کی وجہ سے لوگوں کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے مقابلے میں مسلمانوں کی اقدار اور جرمن ثقافت میں تفاوت زیادہ ہے۔‘‘
ش ح / م م (الیزابیتھ شوماخر)