پیغمبر اسلام کے بارے میں ایرانی فلم: پذیرائی بھی، تنقید بھی
28 اگست 2015جمعرات ستائیس اگست کو ایرانی سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی گئی اس فلم کو ابتدائی طور پر سراہا جا رہا ہے۔ مجید مجیدی کی ہدایتکاری میں بنائی گئی اس 171منٹ دورانیے کی فلم پر چالیس ملین ڈالر (چھتیس ملین یورو) کے برابر لاگت آئی ہے۔ بصری حوالوں سے چونکا دینے والی اس فلم کی تیاری کے لیے ایرانی حکومت نے بھی سرمایہ فراہم کیا۔ ایران میں آج تک بنائی جانے والی اس سب سے زیادہ لاگت والی تاریخی فلم کو سات برس کے عرصے میں مکمل کیا گیا۔
فلم کے ڈائریکٹر مجیدی نے بتایا ہے کہ اس فلم کو بنانے کا مقصد اسلام کی ان حقیقی تعلیمات کا فروغ ہے، جنہیں انتہا پسندوں نے مسخ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’بدقسمتی سے موجودہ وقت میں اسلامی تعلیمات کو بنیاد پرستانہ نظریات، انتہا پسندی اور تشدد سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔‘‘ مونٹریال میں اس فلم کے بین الاقوامی پریمیئر کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مجیدی نے کہا، ’’دہشت گرد گروہ دہشت گردی کی بہیمانہ کارروائیاں اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے کر رہے ہیں، جو اصل میں اسلام سے کوئی مطابقت نہیں رکھتیں۔‘‘
ہوشربا عکاسی
مجید مجیدی کے بقول، ’’اسلام امن، دوستی اور محبت کا پیغام دیتا ہے۔ میں نے اپنی اس فلم میں یہی دکھانے کی کوشش کی ہے۔‘‘ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ’محمد‘ نامی اس فلم میں چودہ سو سال پہلے کی عرب سرزمین دکھائی گئی ہے۔ اس فلم میں پیغمبر اسلام کے ولادت سے قبل کے حالات سے لے کر ان کی زندگی کے لڑکپن تک کے دور کی عکاسی کی گئی ہے۔ اس فلم کے لیے بھارت کے معروف آسکر انعام یافتہ موسیقار اللہ رکھا رحمان (اے آر رحمان) کے علاوہ اطالوی عکس بند (سینماٹوگرافر) ویتوریو ستورارو کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔ ستورارو بھی ماضی میں اپنی شاندار عکس بندی پر تین مرتبہ آسکر انعام حاصل کر چکے ہیں۔
معجزات سے پُر اس فلم کے ایک منظر میں اسلامی تاریخ کا وہ واقعہ بھی انتہائی مہارت اور محو کر دینے والی معجزاتی کیفیت کے ساتھ عکس بند کیا گیا ہے، جب مکہ میں ہاتھیوں کے ساتھ حملہ کرنے والے یمنی قبائل پر پرندوں نے کنکریاں پھینک کر حملہ آوروں کے پورے لشکر کو نیست و نابود کر دیا تھا۔ اس تاریخی واقعے کا تذکرہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن میں ایک سورت کی صورت میں بھی ملتا ہے۔ اس فلم میں وہ تاریخی معجزہ بھی انتہائی جذباتی اور متاثر کن انداز میں عکس بند کیا گیا ہے، جب پیغمبر اسلام نے اپنے پچپن میں اپنی بیمار رضاعی والدہ کو ہاتھ کے صرف ایک لمس کے ساتھ ہی تندرست کر دیا تھا۔
تہران کے ایک سینما گھر کے باہر موجود چالیس سالہ ماہشا رسول زادے نے اے ایف پی کو بتایا، ’’یہ فلم ہمیں جذبات کے بہاؤ میں لے گئی۔‘‘ اٹھائیس اگست بروز جمعرات اس فلم کا پہلا شو گیارہ بجے شروع ہوا، جس میں سینما تقریباﹰ بھرا ہوا تھا لیکن اس فلم کے دوسرے اور تیسرے شو کی ٹکٹیں پہلے ہی فروخت ہو گئیں اور دونوں شو ہاؤس فل رہے۔ اپنے کنبے کے ساتھ اس فلم کو دیکھنے کے لیے سینما پہنچنے والے ابوفضل فتحی کے بقول انہیں یہ فلم بہت زیادہ پسند آئی، ’’جو لوگ اسلام کو نہیں جانتے میرے خیال میں ان کی ابتدائی تعلیم کے لیے یہ انتہائی اہم ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘
’شیعہ ایجنڈے کا فروغ‘
دوسری طرف کینیڈا کے شہر مونٹریال میں واقع امپیریل سینما، جہاں اس فلم کی نمائش کی جا رہی ہے، کے باہر پچاس مظاہرین نے اس فلم کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ ان مظاہرین نے مجیدی پر الزام عائد کیا کہ وہ اس فلم سے ایرانی پراپیگنڈا کو فروغ دینے کی کوشش میں ہیں۔
پیغمبر اسلام کی زندگی پر ’محمد‘ دوسری اہم پروڈکشن ہے۔ اس سے قبل شامی نژاد امریکی فلم ساز مصطفیٰ عکاد نے 1976ء میں ’محمد، دا میسنجر آف گاڈ‘ نامی فلم بنائی تھی، جو بالخصوص ایرانی شیعہ کمیونٹی میں ایک سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی تھی۔ پیغمبر اسلام کی زندگی پر قریب چالیس برس بعد بنائی گئی اس دوسری اہم ترین فلم پر پہلی فلم کے مقابلے میں تقریباﹰ بیس گنا زیادہ خرچ آیا۔
تاہم چند تنقیدی حلقوں نے فلم ’محمد‘ پر کچھ اعتراضات بھی کیے ہیں۔ فلمسازی کی تعلیم حاصل کرنے والی تئیس سالہ کومل ارجمندی نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میں نے اس فلم کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا۔ لیکن ایمانداری کے ساتھ بات کی جائے تو میری توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ میں چاہتی تھی کہ اس موضوع پر کوئی فلم بنائی جائے تو وہ عکاد کی فلم سے بہتر ہو۔‘‘
اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا کہ پروگرام کے مطابق تین حصوں پر مشتمل ’محمد‘ نامی اس فلم سیریز کے باقی دو حصے کب فلمائے جائیں گے اور کب وہ سینما گھروں میں نماش کے لیے پیش کیے جائیں گے۔ یہ امر اہم ہے کہ مغربی ممالک میں شائع کیے گئے پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکوں پر ایران کی شیعہ حکومت نے بھی سخت احتجاج کیا تھا تاہم شیعہ مسلمان سنی مسلمانوں کے مقابلے میں پیغمبر اسلام کی ذات، ان کی شبیہ اور اسلامی تاریخ کی دیگر اہم مذہبی شخصیات کی عکاسی کے حوالے سے قدرے اعتدال پسندانہ رویہ رکھتے ہیں۔