پیپلز پارٹی کو پنجاب میں نئے گورنر کی تلاش
6 جنوری 2011اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے نون لیگ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کے مطابق پنجاب حکومت ایک سیاسی قتل کو مذہبی رنگ دے رہی ہے۔ سلمان تاثیر کی رسم قل کے بعد ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی پنجاب کے سیکرٹری جنرل سمیع اللہ خان نے بتایا کہ یہ قتل ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ ان کے مطابق پنجاب کے آئینی سربراہ کو سکیورٹی کے نام پر قاتلوں کے حوالے کر دیا گیا۔ ادھر اس تنقید کے جواب میں پنجاب کے وزیر اعلٰی شہباز شریف نے سلمان تاثیر کے لیے صوبائی کابینہ کا آج مجوزہ تعزیتی اجلاس ملتوی کر دیا ہے۔
پیپلز پارٹی نے اپنی توپوں کا رخ ایک ایسے وقت میں پنجاب حکومت کی طرف موڑا ہے، جب مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت کو چھ روزہ الٹی میٹم دے رکھا ہے۔ یہ وہ حالات ہیں، جن میں پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت والے صوبے میں اپنے گورنر کا فیصلہ کرنا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد اب گورنر کی نامزدگی کا اختیار وزیر اعظم پاکستان کے پاس ہے لیکن واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں فیصلہ کن رائے پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ہو گی۔
مبصرین کے مطابق نئے گورنر کا فیصلہ صوبے میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے آئندہ کے تعلقات کے حوالے سے بھی اہم ہو گا۔ ان کے مطابق نئے گورنر کا نام سامنے آنے سے یہ واضح ہو جائے گا کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں مسلم لیگ نون سے مفاہمت چاہتی ہے یا پھر محاذ آرائی کے راستے پر جانے والی ہے۔
پنجاب کے نئےگورنر کے لیے مبینہ طور پر جن ایک درجن سے زیادہ ناموں پر غور ہو رہا ہے، ان میں پنجاب حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے والے وفاقی وزیر بابر اعوان، مسلم لیگ نون کے ساتھ تعلقات اعتدال پر لانے کی صلاحیت رکھنے والے اعتزاز احسن، پنجاب کی سیاست پرگہری نظر رکھنے والے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، صدر زرداری کے با اعتماد ساتھی لطیف کھوسہ اور سلمان تاثیر کے رشتے دار قاسم ضیا کے علاوہ آمنہ تاثیر، ذکاء اشرف، احمد مختار، جہانگیر بدر، میاں منظور وٹو، میاں مصباح الرحمن، سید آصف ہاشمی اور آصف احمد علی بھی شامل ہیں۔ تاہم آصف زرداری کی فیصلہ سازی پر نظر رکھنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ وہ پنجاب کے نئے گورنر کی نامزدگی کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر سرپرائز دے سکتے ہیں۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: امجد علی