پاکستان: ’ہر پانچویں گھر میں ایک بچہ‘ مزدوری کرتا ہے
13 جون 2024غیر مؤثر قوانین اور ناکافی اقدامات کے باعث پاکستان بھر میں مشقت کرنے والے بچوں کی تعداد 20 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں چائلڈ لیبر کی شرح 14 فیصد بتائی جاتی ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ چائلڈ لیبر میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ حکومتیں اس بارے میں منصوبوں کے اعلانات تو کرتی ہیں مگر چائلڈ لیبر کے خلاف مؤثر اقدامات کے لیے عملی کوششیں کم ہی کی جاتی ہیں۔
پاکستان میں چائلڈ لیبر کی تازہ ترین صورتحال کا ایک جائزہ پیش کرتے ہوئے چائلڈ پروٹیکشن اور بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم این جی او 'گروپ ڈویلپمنٹ پاکستان‘ کے پشاور میں صوبائی کوآرڈینیٹر عمران ٹکر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق اسکول جانے کی عمر کے کم و بیش دو کروڑ بچے اسکول نہیں جا رہے، جس سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ کم ازکم ایک کروڑ تک بچے چائلڈ لیبر کر رہے ہوں گے۔ اس صورت حال میں معاشی کمزوریوں سے نمٹنا، تعلیم تک رسائی کو بہتر بنانا، قوانین کا نفاذ، اور بیداری پیدا کرنے جیسے اہم اقدامات حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری ہیں۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ آخر یہ عملی اقدامات کیوں نہیں کیے جا رہے، عمران ٹکر کا کہنا تھا، ''بچوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے ایک مربوط اور مستقل کوشش ضروری ہے۔ اس سوچ پر عمل کر کے ہی ہم ایک ایسا مستقبل بنا سکتے ہیں، جہاں پاکستان کے ہر بچے کو ہر قسم کی زیادتی اور استحصال سے پاک ماحول میں پڑھنے لکھنے، پروان چڑھنے اور پھلنے پھولنے کا موقع مل سکے۔‘‘
عمران ٹکر نے کہا کہ ان ٹھوس کوششوں اور اقدامات سے ہی چائلڈ لیبر سے پاک پاکستان کا خواب حقیقت بن سکتا ہے، جو پاکستانی بچوں کے لیے ایک روشن اور زیادہ خوشحال مستقبل کی راہ بھی ہموار کر سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف صوبہ پنجاب میں ہی ایک کروڑ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ان کی ایک بہت بڑی تعداد مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ دریں اثنا صوبائی وزیر تعلیم نے طلبا کو اسکولوں میں داخل کرنے پر خصوصی معاوضہ دینے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے اور طلبا کو ہنر سکھانے پر بھی زور دیا ہے۔
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں مقیم بچوں کے حقوق کے ایک ماہر ارشد محمود نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ چائلڈ لیبر کے موضوع پر بات چیت کرتے ہوئے کہا،''چائلڈ لیبر دراصل چائلڈ پروٹیکشن کا ایسا پہلو ہے جس میں اگر ہم گلوبل سطح پر دیکھیں، تو کچھ بہتری نظر آتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں صورتحال اچھی نہیں۔ اسکول نہ جانے والے بچوں کی بہت بڑی تعداد ہی دراصل پاکستان میں چائلڈ لیبر کی بڑھ چکی شرح کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اس میں بھی خیبر پختونخوا اور پنجاب کے تازہ ترین اعداد و شمار تشویشناک ہیں۔ دیگر علاقوں میں بھی چائلڈ لیبر کا مسئلہ کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔‘‘
ارشد محمود کے مطابق چائلڈ لیبر کی بدترین اقسام میں 'ڈومیسٹک چائلڈ لیبر‘ بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا، '' آئی ایل او اور اسپارک جیسے اداروں کی تحقیق کے مطابق چاروں صوبائی دارالحکومتوں اور اسلام آباد میں ہر پانچویں گھر میں ایک بچہ مزدوری کرتا ہے۔‘‘
ارشد محمود نے بتایا کہ پاکستان کے تمام صوبوں میں 'رسٹرکشن ان امپلائمنٹ آف چلڈرن‘ ایکٹ موجود ہے تاہم بچوں سے مزدوری لینے کی کم سے کم عمر کا یکساں تعین نہیں کیا گیا۔ کہیں یہ عمر 14، کہیں 15 تو کہیں 16 سال مختص کی گئی ہے۔ اسلام آباد اور پورے پنجاب میں ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ میں 16 سال سے کم عمر کے بچوں کو گھریلو ملازم رکھنا ممنوع ہے۔ لیکن ارشد محمود کے بقول مسئلہ ان قوانین پر عمل درآمدر کا ہے۔
بچوں کے حقوق کے ماہر ارشد محمود کا کہنا ہے کہ چائلڈ لیبر کے خلاف پاکستان بھر میں ایک جامع حکمت عملی کی کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول، ''سب سے پہلے روک تھام پر کام کرنا ضروری ہے۔ پاکستانی آئین کے آرٹیکل A25 کے تحت پانچ سے 16 سال تک کی عمر کے بچوں کے لیے تعلیم ایک بنیادی حق اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ تمام بچوں کو مفت تعلیم مہیا کرے۔ لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس وقت پاکستان میں 26 سے 28 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔‘‘
ارشد محمود نے فیملی پلاننگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی پر بھی کوئی کام نہیں ہو رہا۔ شرح پیدائش بڑھ رہی ہے اور ساتھ ساتھ غربت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وجہ سے بھی جن گھروں میں چھ یا سات بچے ہیں، وہاں انہی بچوں کو آمدنی کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی کم سے کم قانونی اجرت کے ضابطے پر بھی عمل نہیں ہو رہا، جس کا بچوں سے لی جانے والی مشقت سے گہرا تعلق ہے۔
انہوں نے بتایا، ''سماجی تحفظ منصوبے کو بھی بچوں کی تعلیم سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ ایسے خاندانوں کو، جن کے بچے اسکول جاتے ہیں، سماجی امداد کی اسکیم سے حصہ ملنا چاہیے۔‘‘
کشور مصطفیٰ