چکوال: امام بارگاہ میں خود کش حملہ، کم از کم تئیس افراد ہلاک
5 اپریل 2009اس مجلس عزا میں ڈیڑھ ہزار کے قریب افراد شریک تھے۔ اچانک ایک نوعمر خودکش حملہ آور نے اس امام بارگاہ میں داخل ہونے کی کوشش کی تو وہاں نگرانی پر مامور افراد نے اس کی تلاشی لینا چاہی۔ اس پر حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اس خود کش حملے کے ایک عینی شاہد وسیم حیدر نے بتایا: ’’ہمارے 20 سے لے کر 25 تک افراد ہر وقت سیکیورٹی کے لئے گیٹ پر موجود ہوتے ہیں۔ انہوں نے جب ڈیٹیکٹرکی مدد سے خود کش حملہ آور کو چیک کیا تو اس نے فورا ہی خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔‘‘
حملے کے بعد امام بارگاہ میں بھگدڑ مچ گئی جبکہ پولیس اور طبی امداد فراہم کرنے والے رضاکاروں کی بڑی تعداد بھی جائے وقوعہ پر پہنچ گئی اور زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہسپتال چکوال اور راولپنڈی منتقل کر دیا گیا۔
اس موقع پر علاقائی پولیس افسر ناصر درانی نے صحافیوں کو بتایاکہ بہتر سیکیورٹی انتظامات کے سبب حملہ آور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے میں ناکام رہا۔ "اس خود کش حملہ آور نے اندر جانے کی کوشش تو کی لیکن وہ امام بارگاہ میں داخل نہیں ہو سکاکیونکہ انتظامیہ کے لوگوں نے اس کو چیک کیا۔ جانی نقصان تو بہت ہوا ہے لیکن اگر یہ حملہ آور وہاں تک پہنچ جاتا جہاں ڈیڑھ ہزار کے قریب افراد موجود تھے تو جانی نقصان انتہائی زیادہ ہوسکتا تھا۔"
چکوال سے مسلم لیگ (ن ) کے رکن قومی اسمبلی ایاز امیر نے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں خود کش حملے کے زخمیوں کی عیادت کے موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایاکہ پنجاب حکومت زخمیوں کو طبی امداد کی فراہمی کے لیے ہر ممکن اقدامات کررہی ہے۔ "صوبائی حکومت کی ہدایت کے بعد ایمبولینسوں کی کوئی کمی نہیں ہوئی۔ یہاں کے زخمیوں کو سنبھالنے کے لئے راولپنڈی کے ہسپتال بھی تیار ہیں۔ یہ سانحہ تو ہو گیا ہے لیکن اس کے بارے میں ہمیں غور کرنا چاہیئے کہ یہ آگ کہاں کہاں پھیل رہی ہے اور اب تولگتا ہے کہ پاکستان میں کوئی جگہ محفوظ نہیں۔"
صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یو سف رضا گیلانی نے چکوال میں امام بارگاہ پر خودکش حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں پہلے اسلام آباد اور پھر چکوال کے خودکش حملوں نے عام شہریوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔