چین میں استعمال شدہ جوہری ایندھن دوبارہ قابل استعمال
4 جنوری 2011چین کے سرکاری میڈیا نے پیر کے روز بتایا کہ یہ کامیابی سرکاری جوہری تحقیقی ادارے چائنا نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن (CNNC) نے حاصل کی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے جوہری ایندھن پر مشتمل ایسے فیول راڈز کو دوبارہ قابل استعمال بنایا گیا ہے، جو استعمال کے بعد ناکارہ ہو چکے ہوں۔
چینی سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق، ’’چین میں اب تک دریافت شدہ یورینیم کے ذخائر 50 سے 70 برس کے دوران ختم ہونا ہیں، تاہم اس ٹیکنالوجی کی بدولت اب یہ ذخائر تین ہزار برس تک کے لیے کافی ہوں گے۔‘‘ تاہم اس رپورٹ میں یہ تفصیلات نہیں بتائی گئیں کہ اس مقصد کے لیے ایسا کون سا طریقہ کار استعمال کیا گیا ہے، جسے ایک بریک تُھرو کہا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ کئی دیگر ممالک بھی استعمال شدہ جوہری ایندھن کو دوبارہ قابل استعمال بنانے میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں، مگر یہ طریقہ کار انتہائی مہنگا ہونے کی وجہ سے عملی طور پر استعمال نہیں کیا جاتا۔
چین کی طرف سے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے اور مستقبل میں توانائی کی ملکی ضروریات پوری کرنے جیسے اہداف کے حصول کے لیے متبادل ذرائع پر انحصار بڑھانے کی طرف یہ دریافت ایک اہم قدم قرار دی جا رہی ہے۔ چین نے فضا میں ضرر رساں کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے لیے جوہری توانائی کے میدان میں سرمایہ کاری بڑھا دی ہے۔ اس وقت چین کی 70 فیصد توانائی کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس سے حاصل کی جاتی ہے، جو فضا میں کاربن گیسوں کے اخراج کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت چین نے سال 2020ء تک توانائی کی ملکی ضروریات کا 15 فیصد قابل تجدید ذرائع سے حاصل کرنے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق اس سلسلے میں سال 2020ء تک 70 سے 80 گیگا واٹ تک بجلی جوہری توانائی کے ذریعے حاصل کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے، جوکہ ملک کی کُل پیداواری صلاحیت کا پانچ فیصد بنتا ہے۔ اس سے قبل حکومت نے یہ ٹارگٹ 40 گیگا واٹ رکھا تھا۔
چین میں اس وقت 13 ایٹمی ری ایکٹر کام کر رہے ہیں۔ ایک چینی اخبار کے مطابق یہ ری ایکٹر سالانہ 750 ٹن یورینیم تیار کرتے ہیں، مگر سال 2020ء تک چین کی یورینیم کی سالانہ ضروریات 20 ہزار ٹن تک پہنچ جائیں گی۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک